کشمیر پراپرٹی کا نصف حصہ فروخت،کشمیری عوام یکسر محروم

کاشگل نیوزخصوصی رپوٹ

پاکستان کے زیر انتظام مقبوضہ جموں کشمیر ریاست کی "کشمیر پراپرٹی” کانصف حصہ فروخت کردیا گیا ہے ۔ جبکہ کشمیر ی عوام اپنی جدی پشتی” کشمیرپراپرٹی "سے یکسر محروم محروم ہیں۔

مہاراجہ دور سے پاکستان کے مختلف شہروں میں موجود کھربوں مالیت کی کشمیر پراپرٹی جموں وکشمیر حکومت کے حوالے کرنے کی بجائے فروخت کرنے کیلئے کی گئی کمیٹی کا کوئی اتہ پتہ نہیں چل سکا۔

سول سوسائٹی کے اکابرین نے لاکھوں سوالات اٹھاتے ہوئے نیا پنڈورا باکس کھول دیا۔

قبل ازیں بھی کشمیر پراپرٹی فروخت کی گئی۔جموں و کشمیر میں انوار سرکار اور اتحادی اپنا اقتدار بچانے کیلئے مکمل خاموش بلکہ سہولت کار بن گئے۔پرنٹ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا متعدد مرتبہ اس پراپرٹی کی تفصیل سامنے لا چکے ہیں،جس کے مطابق ایڈمنسٹریٹنگ آف کشمیر پراپرٹی آرڈیننس 1961ء کے تحت متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کی سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام و انصرام جموں وکشمیر حکومت سے لیکر وفاقی وزارت امور کشمیر کو دیا گیا۔

وزارت امورکشمیر لاہورمیں قائم ایڈمنسٹریٹر جموں کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے دفتر کے ذریعے اس سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ایڈمنسٹریٹر جموں وکشمیرسٹیٹ پراپرٹی لاہور کے مطابق 1947 ء میں آزادی کے بعد ریاست جموں وکشمیر کی جائیدادیں (یا مہاراجہ آف جموں کشمیر یا مہاراجہ پونچھ) جو ریاست جموں وکشمیر کی علاقائی حدود سے باہر واقع تھیں،ان کا انتظام جموں و حکومت ریاست جموں و کشمیر نے لے لیا اوراس سٹیٹ پراپرٹی کے قیام کیلئے منیجر قائم کیا۔

پنجاب حکومت نے اس کشمیر پراپرٹی کو متروکہ جائیداد تصورکیا۔

ایڈمنسٹریٹر آفس کے مطابق قانونی و انتظامی مشکلات کی وجہ سے جموں وکشمیر حکومت نے جون 1955 ء میں حکومت پاکستان سے درخواست کی کہ وہ کشمیر پراپرٹی کاانتظام سنبھال لے۔حکومت پاکستان ایڈمنسٹریٹنگ آف کشمیر پراپرٹی آرڈیننس 1961ء کے تحت کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔

یوں 15 اگست 1947ء سے ریاست جموں وکشمیر ، مہاراجہ کشمیر و مہاراجہ پونچھ کی پاکستان میں واقع جائیدادیں حکومت پاکستان کے زیر انتظام قرار پائیں۔

وزارت امورکشمیر نے کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے انتظام کیلئے لاہور میں ایڈمنسٹریٹر آفس، معہ ضروری سٹاف، ایکوپمنٹ،ٹرانسپورٹ متعین کیا اورکوالیفائیڈ پروفیشنل منیجر کی خدمات حاصل کرتے ہوئے ایڈمنسٹریٹرکو مزید مضبوط کیا گیا۔

کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا زیادہ حصہ پنجاب اور کچھ خیبر پختونخواہ میں واقع ہے۔

پاکستان میں ریاست جموں وکشمیرکی کل شہری سٹیٹ پراپرٹی 1048 کنال تھی جس میں سے 468 کنال فروخت کردی گئی ہے۔ جبکہ اب 580 کنال پرمبنی جائیداد باقی بچی ہے۔

اسی طرح کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی کل زرعی اراضی تقریباًً 2426 ایکڑ تھی جس میں سے 462 ایکڑ فروخت کردی گئی اور اب 1974 ایکڑ باقی بچی ہے۔

کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی ان 35 جائیدادوں میں سے 14 جائیدادیں 1961 ء سے اب تک وزارت امورکشمیر کے خطوط پر مبنی اجازت کے ذریعے منظور نظر افراد کو فروخت کی جاتی رہی ہیں۔

کشمیرسٹیٹ پراپرٹی کی فروخت کردہ جائیدادوں کی مالیت کیا ہے ؟کس کس کو کتنے کتنے میں فروخت کی گئیں؟ اس بارے میں کوئی تفصیل موجود نہیں ہے۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ جموں وکشمیر حکومت کے پاس پاکستان میں واقع کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی کوئی تفصیل موجود نہیں ہے۔ آفس آف دی ایڈمنسٹریٹر کشمیر سٹیٹ پراپرٹی لاہور کی 2004-5 ء کے مالی سال میں آمدن تقریباًً 6 کروڑ روپے تھی جس میں سے 3 کروڑ روپے اخراجات ظاہر کئے گئے تھے۔

واضح رہے کہ اس کشمیر سٹیٹ پراپرٹی سے متعلق یہ جائیدادیں برائے نام کرایہ پر دی ہیں۔

ایڈمنسٹریٹنگ آف کشمیر پراپرٹی آرڈیننس 1961ء کا مقصد متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کے حتمی فیصلے تک پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں موجود کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا اچھا انتظام کرنا ہے۔ یوں وزارت امور کشمیر کی طرف سے کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی فروخت کا یہ سلسلہ حاصل مینڈیٹ کی سراسر خلاف ورزی اور قومی و ریاستی خزانے کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کرپشن اور اقرباء پروری کے زمرے میں آتاہے۔

کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے حوالے سے یہ بھی حیران کن امر ہے کہ اس کی آمدن آزادکشمیر یا پاکستان کے خزانے میں نہیں جاتی بلکہ صرف وزارت امور کشمیر کی صوابدید پر ہے۔ جبکہ جموں و کشمیر کیلئے حکومت پاکستان کے منظور کردہ عبوری آئین 1974 ء کے تحت پاکستان میں کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا سبجیکٹ کشمیر کونسل کو دیا گیاہے۔

یوں جموں وکشمیر کے عبوری آئین 1974 ء میں پاکستان میں واقع کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا سبجیکٹ کشمیر کونسل کو تفویض کئے جانے کی وجہ سے 1961 ء کا ایڈمنسٹریٹنگ آف کشمیر پراپرٹی آرڈیننس منسوخ کر دینا چاہئے (وزیراعظم پاکستان ہی کشمیر کونسل کے بھی سربراہ ہیں)۔

وفاقی وزارت امورکشمیر نے جموں وکشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی دیکھ بھال کرتے ہوئے نصف کے قریب کشمیر سٹیٹ پراپرٹی فروخت کردی ہے اور خطرہ ہے کہ اگر یہ سلسلہ روکا نہ گیا اور کشمیر پراپرٹی کی حفاظت اور دیکھ بھال پر توجہ نہ دی گئی تو سیاسی نوازشوں کے طور پر کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی تمام جائیدادیں فروخت کر دی جائیں گی۔

وزارت امور کشمیر پاکستان میں واقع اربوں روپے مالیتی کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی 468 کنال شہری اور 452ایکڑ زرعی اراضی فروخت کرچکی ہے ۔ فروخت کردہ کشمیر پراپرٹی کا کوئی حساب کتاب موجود نہیں ۔

وفاقی وزارت کو کشمیر پراپرٹی فروخت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی کل 1048کنال شہری پراپرٹی میں سے اب صرف 580 کنال اور 2426 ایکڑ دیہی اراضی میں سے 1974 ایکڑ باقی بچی ہے ۔ جموں و کشمیر حکومت کے پاس کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی کوئی تفصیل موجود نہیں ۔

جموں وکشمیر میں حکومتوں کا مسلسل مطالبہ رہا ہے کہ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام جموں و کشمیر حکومت کو واپس دیا جائے ۔کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام 1947ء سے1955ء تک آزاد کشمیر حکومت کے پاس رہا ہے۔

Share this content: