نیپال میں عوام خاص طور پر نوجوانوں کی طرف سے حکومت کے خلاف احتجاج اور پارلیمان ، وزیراعظم ہاؤس کو آگ لگا کر اس نظام سے نفرت اور اسے گرانے کے عمل کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس نظام کو سمجھا جائے کہ نظام کونسا تھا جس کو شکست ہوئی اور عوام نے اسے اکھاڑ کر پھینک دیا . خاص طور پر ان لوگوں کو یہ ضرور سمجھنا چاہیے جو بغلیں بجا رہے ہیں کہ کمیونزم ناکام ہو گیا. اقتدار میں تو یقینا” کمیونسٹ ہی تھے . لیکن وہ کس نظام کو چلا رہے تھے ، وہ کون سا نظام تھا جس کے خلاف عوام نے بغاوت کی ہے ۔
1۔بادشاہت کو شکست دینے کے بعد کمیونسٹ پارٹی (ماؤسٹ یا یونیفائیڈ ) نے وہی پارلیمانی نظام مروج کیا جو بادشاہ کی موجودگی میں تھا ۔ یعنی جس پارلیمانی نظام نے عوام کو مہنگائی ، بے روزگاری اور غربت دی تھی ، جس نظام کو عوامی بغاوت سے گرا کر شکست دے کر نیا سیاسی نظام قائم کرنا تھا ،اس کے بجائے صرف بادشاہ کو ہٹاکر نئے آئین میں پارلیمان کو مزید اختیارات دے کر اسی نظام کو تھوڑی بہت پالش کر کے مروج کیا گیا ۔ عوام کی نظر میں بادشاہ کے بغیر نئی پارٹیوں کی قیادت میں پرانا نظام ہی قائم رہا ۔
نیپال میں پہلے بھی قبائیلی نظام موجود تھا ، جس میں تھوڑی رینوویشن کی گئی ، نہ تو صنعتی پیداوار کو بڑھایا گیا اور نہ ہی سوشلسٹ یا عوامی جمہوری انقلاب کی اصل قوت مزدور طبقے کو بڑھایا گیا ۔ اب بھی جی ڈی پی میں صنعت کا حصہ بمع بجلی کی پیداوار کے 14 فی صد اور ٹوٹل ورک فورس کا 15.1 فی صد صنعت سے وابستہ ہے ۔ زراعت بمع فشریز اور لائیو اسٹاک کے جی ڈی پی میں حصہ 25 فی صد اور ٹوٹل ورک فورس کا 60.64 فی صد زراعت میں مصروف ہے ۔ سروسز سیکٹر میں5.20 صد ہے ۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ ماقبل سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ داری کا سیاسی نظام مروج ہو سکتا ہے؟
2 ۔مابعد نوآبادیاتی نظام کے شکار اکثر ممالک کی طرح شاہ کے زمانے میں بھی معاشی نظام سرمایہ دارانہ تھا ، اور سماجی ڈھانچہ ماقبل سرمایہ دارانہ اور شاہ پرست نیپالی کانگریس پارٹی اسے قائم کیئے ہوئی تھی ۔ یہ معاشی نظام جو عوام کی سماجی معاشی ترقی میں رکاوٹ تھا ، اس تضاد کے بنیاد پر کمیونسٹ پارٹی آف نیپال کے مختلف دھڑوں نے عوام کو منظم کر کے شاہ اور اس کے حواریوں کے خلاف انقلاب بپا کیا تھا ۔ اس انقلاب کو 20 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا لیکن نظام میں تبدیلی نہیں آئی . الٹا منصوبہ بند معیشت کی قوتوں کی قیادت میں نیو لبرلزم کی معاشی پالیسیاں نافذ رہیں ، اس کا نتیجہ ایک اور عوامی بغاوت کی صورت میں سامنے آنا یقینی تھا ۔
سماج میں موجود بنیادی تضاد نہ صرف پہلے کی طرح قائم رہا ، بلکہ سرمایہ دارانہ نظام میں جو بد عنوانی اور اقربہ پروری اپنے جوہر میں ہوتی ہے ، وہ نہ صرف قائم رہی بلکی بڑھتی گئی . اسی نے دیمک کی طرح پورے نظام کو کھوکھلا کر دیا ۔ اس سے فرق کیا پڑتا ہے کہ کمیونسٹ پارٹیوں کی حکومتیں ہیں ۔ نتیجہ وہی نکلنا تھا جو سامنے آیا ہے۔ یعنی یہ سرمایہ دارانہ سیاسی و معاشی نظام کی ناکامی ہے جس کے خلاف عوامی بغاوت ہوئی ہے . یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس تضاد کو بیرونی عوامل نے تیز اور منظم کیا ہو . کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان 2023میں اپنی کانگریس کے دستاویز میں اس کا تفصیلی جائزہ لیکر نیپال میں کمیونسٹوں کی حکومتوں اور ان کی طرف سے قائم نظام کا تنقیدی جائزہ لیکر پیش بندی کر چکے تھی کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا اور یہ کس طرح ناکامی کا شکار ہوگا۔
ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ووٹ کے ذریعے مدے خارج سرمایہ دارانہ سیاسی نظام (پارلیمانی یا صدارتی جمہوریت) کے تحت اقتدار حاصل کر کے پرانی مشینری اور پرانے سیاسی نظام کے ذریعے ، سرمایہ دارانہ معاشی ڈھانچے میں رہتے ہوئے نظام کو تبدیل کر کے عوام کی زندگی کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔اس میں عوام کی خوشحالی اور استحصال کا خاتمہ ناممکن ہے . اس طرح سوشلزم کی تعمیر نہیں ہو سکتی . سوویت یونین میں رد انقلاب کے بعد اصلاح پسندوں ، سوشل ڈیموکریٹوں کو پروپیگنڈا کرنے اور اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کا موقعہ ملا اور بھانت بھانت کے نسخے لیکر سامنے آگئے ۔
سرمایہ دارانہ نظام کے حمایتی دانشوروں نے بھی ان کی حمایت میں خوب مواد لکھ کر ان کو درست ثابت کرنے میں مدد کی . اس وجہ سے نئی نئی تھیسز آنا شروع ہو گئیں . کسی نے جمہوری سوشلزم کا نعرہ دیا تو کسی نے اسٹالنزم کہہ کر سوویت نظام کو رد کر کے ٹراٹسکی ازم کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ جس کا کوئی ماڈل ہی نہیں ، پوری ایک صدی گزرنے کے بعد بھی کہیں اس کے تحت کوئی انقلاب نہیں آیا ، لیکن پھر بھی وہ اپنے آپ کو درست کہتے رہے . سن دوہزار کے آتے آتے پھر اکیسویں صدی کے سوشلزم کی تھیسز بھی آئی ۔
دراصل یہ تمام کی تمام تھیسز سوشل ڈیموکریسی یعنی پرامن طریقے سے سرمایہ داری کو انسانوں کے لئے قابل قبول بنانے کی ناکام کوششیں تھیں۔ یعنی پرانی شراب نئی بوتل میں پیش کرتے رہے جو کمیونسٹ پارٹیاں ان راستوں پر چلیں وہ چاہے پاپولر ووٹ سے ہی اقتدار میں آئیں ، نظام کو ارتقائی عمل سے بتدریج سوشلزم لانے کی کوشش کرتی رہیں ، ان کو یا تو سامراج نے سازشوں کے زریعے اقتدار سے ہٹا دیا ، یا پرانی مشینری کو تبدیل نہیں کر سکے اور اس نے اٹھا کے باہر پھینک دیا ، یا عوام کو وہ نظام کچھ نہیں دے سکا کیونکہ وہ اس قابل ہی نہیں تھا ، اس وجہ سے عوام نے انہیں ووٹ کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا ۔ اکثر تو یہ بھی ہوا کہ عوام نے ری ایکشن میں مدے خارج رجعت پسند پارٹیوں کو حکومتیں دلائیں . یا پھر نیپال کی طرح عوام ایک اور بغاوت کرنے پر مجبور ہوئی ۔
ایران میں ڈاکٹر مصدق سے لیکر ، انڈونیشیا میں سوئیکارنو اور چلی میں صدر آلیندی کی جمہوری طریقے سے منتخب حکومتوں سے لیکر برازیل ، وینزویلا تک ، ارجنٹینا سے بولیویا تک اور اب نیپال میں جو کچھ ہوا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پرانے نظام کی قوتوں کو عوامی بغاوت کے ذریعے شکست دیکر نئی ریاستی مشینری کے ذریعے پرانے سیاسی و معاشی اور سماجی نظام کے اداروں کو توڑ کر ، ختم کرکے نئے نظام کو قائم کرنے سے ہی پرانے استحصالی نظام سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے ۔ تب ہی سوشلسٹ نظام قائم کر کے انسانی سماج کی ترقی کے راستے کھولے جا سکتے ہیں ۔ اس کے لئے انقلابی پارٹی کی تعمیر اور انقلاب کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کے بعد سماج اور پارٹی میں مسلسل نظریاتی جنگ جاری رکھ کر ہی سوشلزم کو ترقی کی طرف گامزن کیا جا سکتا ہے ۔
***
Share this content:


