تین معاہدوں کی حقیقت، اشرافیہ کے دوہرے معیار کا کھیل ۔۔۔ کاشف میر

یاد رہے! جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ تین معاہدے اور نوٹیفکیشن خود حکومت نے کیے تھے یہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ مہر شدہ سرکاری حقیقت ہے۔ مگر آج انہی حکمرانوں اور ان کے سہولت کاروں کا دعویٰ ہے کہ اس بار عوامی جتھوں سے مذاکرات نہیں ہوں گے، اور مطالبات صرف اسمبلی کے ذریعے آئیں، وہی اسمبلی جو مراعاتی منڈی میں بدل چکی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ حکومت اپنے معاہدے پر عمل میں ناکام رہی ہے، نہ انٹرنیٹ اور موبائل کمپنیوں نے سروس بہتر کی، نہ صحت و تعلیم کو معیاری کیا گیا، نہ روزگار اور نہ دیگر اہم مطالبات بشمول اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے کا کمیشن محض ایک سرکلر سے آگے نہ بڑھ سکا، باقی مسائل فائلوں میں دفن رہے۔ عوام نے پچھلے نو ماہ میں مزید مطالبات اٹھائے اور حکومت نے جواب میں پولیس کے ڈنڈوں کو ہی پالش کر لیا، ادھر دوسری طرف تمبر کا مسواک بھی مارکیٹ میں خوب برینڈ بن چکا ہے ۔

سوال یہ ہے کہ جب عوامی مینڈیٹ کو متنازعہ عدالتی فیصلوں ، فارورڈ بلاکس اور سازشوں کے ذریعے روند ڈالا جائے، اپوزیشن کو ایوان سے بے دخل کیا جائے اور اشرافیہ کی مراعات دن بہ دن بڑھتی جائیں تو عوام کہاں جائیں؟ سڑک ہی ان کی عدالت بچتی ہے۔

تماشا یہ ہے کہ عوام اپنے حقوق مانگیں تو "بلیک میلر” کہلاتے ہیں اور اشرافیہ پلاٹ، گاڑی، پٹرول ، ملازمین اور پروٹوکول مانگے تو "ریاست کے معزز رہنما” بن جاتے ہیں۔ یہی دوہرا معیار اس بحران کی اصل جڑ ہے۔

٭٭٭

Share this content: