رحجانی لکیر۔ فرحان طارق
پاکستان کے زیر انتظام مقبوضہ جموں کشمیر میں ایک بار پھر احتجاجی سیاست زور پکڑ رہی ہے۔ آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے جنم لینے والی عوامی تحریک اب خطے کی سب سے بڑی عوامی مزاحمتی لہر میں ڈھل چکی ہے۔ یہ تحریک ابتدا میں ایک ضلع سے اٹھی تھی مگر جلد ہی پورے خطے میں پھیل گئی، اور اب جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے منظم ہو کر حکومت کے لیے سب سے بڑا امتحان بن چکی ہے۔
تحریک کا سفر
16 ستمبر 2023 کو مظفرآباد میں تاجروں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے اجلاس کے بعد "جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی” کے نام سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم سامنے آیا۔ اسی روز تحریک کو نیا رخ ملا، بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ اور سول نافرمانی کا اعلان کیا گیا۔
10 اکتوبر کو خواتین، 17 اکتوبر کو طلبہ اور بعد ازاں مختلف طبقات کے لوگ اس تحریک کا حصہ بنتے گئے۔ مرحلہ وار پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن کی کالوں نے خطے کی روزمرہ زندگی کو متاثر کیا۔
حکومت اور عوام آمنے سامنے
حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے مگر ڈیڈلاک برقرار رہا۔ 2024 میں لانگ مارچ کی کال کے موقع پر حالات کشیدہ ہوئے، گرفتاریاں ہوئیں اور جھڑپوں میں جانی نقصان بھی ہوا۔ ایک پولیس افسر اور دو مظاہرین جان سے گئے، درجنوں زخمی ہوئے اور متعدد گرفتار ہوئے۔
اگرچہ حکومت نے 4 فروری اور 8 دسمبر 2024 کو کمیٹی کے ساتھ دو معاہدے کیے، لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ احتجاج کو دبانے کے لیے زبان بندی کا صدارتی آرڈیننس بھی لایا گیا جو شدید عوامی ردِعمل کے بعد واپس لینا پڑا۔
نئے مطالبات اور موجودہ منظرنامہ
اب ایکشن کمیٹی نے 38 نکات پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا ہے۔ ان مطالبات میں اسمبلی میں مہاجرین کے لیے مخصوص 12 نشستوں کا خاتمہ، مفت تعلیم و صحت کی فراہمی اور ایک بین الاقوامی معیار کا ایئرپورٹ قائم کرنا شامل ہیں۔
کمیٹی نے حکومت کو 29 ستمبر 2025 تک کا الٹی میٹم دیا تھا، اور اب 29 ستمبر کے پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن کی کال کے ساتھ خطے میں بے چینی کی فضا مزید گہری ہو گئی ہے۔
عوامی احساسِ محرومی
سیاسی مبصرین کے مطابق یہ احتجاج محض معاشی مسائل کا ردعمل نہیں بلکہ برسوں سے چلی آ رہی پسماندگی، وسائل کی غیر مساوی تقسیم اور عوامی احساسِ محرومی کا اظہار ہے۔ شہریوں کے ذہنوں میں سوال ہے کہ کیا ان کے حقوق صرف وعدوں اور معاہدوں تک محدود رہیں گے یا عملی اقدامات کی صورت میں بھی سامنے آئیں گے؟
آگے کیا ہوگا؟
اب سب کی نگاہیں 29 ستمبر پر مرکوز ہیں۔ آیا یہ پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن خطے کو ایک نئے سیاسی بحران میں دھکیل دے گا یا حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی کسی بامعنی مذاکرات کے ذریعے حل نکال پائیں گے؟ وقت ہی اس سوال کا جواب دے گا۔ تاہم ایک بات طے ہے: عوامی آواز کو دبانا اب پہلے جتنا آسان نہیں رہا۔
***
Share this content:


