عالمی یومِ جمہوریت بین الاقوامی پارلیمانی یونین کے تحت ہر سال دنیا بھر میں 15 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کی ابتدا 2008ء میں ہوئی۔
اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی نے 2007ء میں اپنے 62 ویں سیشن کے ایجنڈا آئٹم نمبر 12 کی قرارداد نمبر 62/7 کے ذریعے ہر سال یہ دن منانے کی قرارداد منظور کی۔
اس دن کو منانے کا مقصد بین الاقوامی سطح پر نئی جمہوریۂ ریاستوں کی حمایت کرنا اور ملکوں میں حکومتی سطح پر جمہوریت کے فروغ کے اقدامات کرنا ہے۔ مگر جمہوریت کے عالمی دن کے موقع پر آج ایک ایسے خطے کی جمہوریت کی بات کریں گے جہاں جمہوریت کی جگہ موروثیت اور بادشاہت کا دور دورہ ہے۔
یہ بات ہو رہی ہے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی جسے عرفِ عام میں آزاد کشمیر کہا جاتا ہے، جس کی تاریخ کو گوہر کے حوالے کر کے گورکنوں نے نیا رنگ دیا۔ 1947ءکچھ خاندانوں کے بااثر لوگ بڑے فخریہ انداز میں فرماتے ہیں کہ ہم نے شخصی حکمرانی کے خلاف جد و جہد کی اور جمہوریت کا آغاز کیا۔
وہیں اس موقع پر عقل ہمیں جھنجھوڑتی ہے: ایسا خطہ جس میں بسنے والے دن بھر مشقت کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں، جہاں کے باسی رفعِ حاجت کے لیے کھیتوں کا رخ کرتے تھے، جہاں واش روم تک نہیں تھے، جہاں شرحِ تعلیم انتہائی پست تھی، جہاں عوام برادری، ٹبر اور طبقوں میں تقسیم تھی —اور آج تک ہے۔
بھلا دہائیوں قبل وہاں جمہوریت کا تصور کیا ہوا ہو گا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ آج جمہوریت کے علمبردار جو کہتے ہیں کہ ایک جتھہ جمہوری نظام تباہ کر دے گا، انہی جمہوریت کے رکھوالوں نے ایک جتھہ کے ذریعے اس خطے میں بسنے والے لوگوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی اور آج یہ جتھوں سے خوف زدہ ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ تشدد سے تشدد جنم لیتا ہے؛ پھر آج یہ چیخیں کیوں مانی گئی ہیں کہ وہ جہدِ جد و جہد شخصی حکمرانی کے خلاف تھی؟ ایک حاکم کو ہٹا کر اس خطے کو بارہ خاندانوں میں کیوں بانٹا گیا؟ انہی بارہ خاندانوں نے یہاں پر بسنے والوں کے ساتھ بدسلوکی دہائیوں سے روا رکھی اور آج جب عوام ان خاندانوں کو للکار رہے ہیں تو جمہوریت کے دعوے دار کہہ رہے ہیں یہ جتھہ غیر ملکی ایجنڈے پر کام کر رہا ہے۔
اے جمہوریت کے علمبردارو! ذرا یہ تو بتاؤ: جس جتھے کے ساتھ تم نے جمہوریت کے میدان میں فتح کا علم گاڑا تھا، اس جتھے کو کس کی پشت پناہی حاصل تھی؟ ان نہتے لوگوں کے خون کا حساب کون دے گا جن کے خلاف تم کہتے ہو ہم نے جہاد کیا؟ بھلا یہ کون سی جہاد تھی جس میں پڑوسی کے گھر و جائیداد، مالِ زر کی خاطر تم نے انھیں مار ڈالا؟ تم نے بادشاہت کا خاتمہ کر ہی لیا تھا، تو جمہوریت پسندو یہ بتاؤ: اس خطے میں اقتدار کی خاطر لوگوں کو کیوں مروایا جاتا رہا؟
اگر آپ اتنے ہی جمہوریت کے قائل تھے تو اس خطے میں سیاسی استحکام کیوں نہ آنے دیا گیا؟ شخصی حکمرانی کے خلاف جمہوریت کے میدان میں اترنے والے موروثیت کی دلدل میں کیوں پھنسے رہ گئے؟ اس خطے کے موجودہ حکمران وقت ماضی کے حکمرانوں کی طرح خود کو بہت بڑا جمہوریت پسند قرار دیتے ہیں، مگر ان کے خلاف عوام دو بار ریفرنڈم دے چکے ہیں۔ تاحال وہ اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں: "میں مرضی سے جاؤں گا؛ جن لوگوں نے مجھے لایا ہے وہی مجھے لے جا سکتے ہیں۔
” سویلین نقطۂ نظر یہ ہے کہ آپ کو کس نے لایا ہے؟ جمہوریت میں تو عوام انتخاب کرتے ہیں — آپ کو لانے والے کون ہیں؟ اور آپ کی جمہوریت کیسی ہے؟ کیا تمہاری جمہوریت تمہاری برادری یا تمہارے قبیلے تک ہی محدود ہے؟ موجودہ حالات بتا رہے ہیں کہ تمہاری اس جمہوریت کو عوام حرفِ غلط کی طرح مٹا دیں گے۔ تم دیکھتے رہ جاؤ گے کیونکہ لوگ جمہوریت کے حقیقی معنی سمجھ چکے ہیں۔
Share this content:


