آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی (AAC) کا قیام ایک حادثاتی یا وقتی واقعہ نہیں بلکہ ایک تاریخی، سماجی اور معاشی ضرورت کا نتیجہ تھا۔ برسوں سے آزاد کشمیر کے عوام جن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں، وہ بظاہر "آزاد” خطے کے باسیوں کے لیے ایک مسلسل غلامی کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ بجلی جو اسی خطے سے پیدا ہوتی ہے، وہاں کے عوام کو اندھیروں میں رکھا جاتا ہے۔ آٹا جو گندم سے پیدا ہوتا ہے، اس کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ تعلیم، صحت، روزگار، صاف پانی، بنیادی سہولیات — سب کچھ محدود طبقے کے لیے مخصوص اور عوام کے لیے محرومی بن چکا تھا۔ ان سب مسائل نے عوام کے اندر ایک بے چینی پیدا کی، جو ایک بے سمت غصے میں تبدیل ہو رہی تھی، اور پھر یہ غصہ شعور میں ڈھلا عوامی ایکشن کمیٹی کے ذریعے۔
عوامی ایکشن کمیٹی دراصل اس غصے اور محرومی کو منظم شعور اور اجتماعی قوت میں تبدیل کرنے کا نام ہے۔ یہ کمیٹی کوئی روایتی سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک عوامی پلیٹ فارم ہے، جہاں مزدور، طالب علم، کسان، تاجر، خواتین، بزرگ اور نوجوان ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر سوال کرتے ہیں: "آخر ہم کب تک خاموش رہیں؟”۔ عوامی ایکشن کمیٹی نے وہ کام کیا جو برسوں سے سیاسی جماعتیں کرنے میں ناکام رہی تھیں — اس نے عوام کو اپنے حقوق کا شعور دیا، اور انہیں یہ سکھایا کہ وہ صرف ووٹر یا رعایا نہیں بلکہ ریاست کے اصل وارث ہیں۔ شعور کا یہ سفر احتجاجی نعروں، سڑکوں پر مارچ، اور مسلسل عوامی رابطوں سے ہوتا ہوا ایک فکری تحریک میں بدل گیا۔
اس شعور کی ایک واضح مثال مئی 2024 کے وہ تاریخی عوامی مظاہرے ہیں جن میں مظفرآباد، راولاکوٹ، کوٹلی، باغ، اور نیلم ویلی جیسے علاقے ہزاروں کی تعداد میں عوامی ریلیوں سے گونج اٹھے۔ عوامی ایکشن کمیٹی نے نہ صرف مہنگائی، لوڈشیڈنگ، آٹے اور تیل کی قیمتوں پر آواز اٹھائی، بلکہ اس پورے استحصالی ڈھانچے کو للکارا جس نے برسوں سے عوام کو خاموش رکھا ہوا تھا۔ ان مظاہروں میں کوئی مخصوص سیاسی جماعت کا جھنڈا نہیں تھا، کوئی روایتی لیڈر نہیں، بلکہ عوام خود قیادت کر رہے تھے۔ یہی AAC کی اصل طاقت ہے — یہ قیادت کے بجائے اجتماعی شعور پر یقین رکھتی ہے۔
عوامی ایکشن کمیٹی کی ناقابلِ تسخیر حیثیت اسی میں ہے کہ یہ کسی ایک شخصیت یا جماعت پر منحصر نہیں۔ اسے نہ خریدا جا سکتا ہے، نہ دھمکایا جا سکتا ہے، اور نہ ہی روایتی سیاسی ہتھکنڈوں سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ تحریک ضمیر کی آواز ہے، اور ضمیر کو جبر سے خاموش نہیں کرایا جا سکتا۔ AAC میں شامل عوام اس لیے ناقابلِ شکست ہیں کہ وہ ذاتی فائدے کے لیے نہیں بلکہ اجتماعی بہتری کے لیے کھڑے ہیں۔ ان کا کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں، کوئی غیرملکی فنڈنگ نہیں، کوئی اقتدار کی خواہش نہیں صرف ایک مطالبہ ہے: انصاف، خودمختاری، اور وسائل پر حقِ ملکیت۔
آزاد کشمیر کے مخصوص مسائل — جیسے پاکستان کے زیرِ انتظام توانائی منصوبوں کے باوجود مقامی لوڈشیڈنگ، بجلی کے بلوں میں ناجائز ٹیکسز، سرکاری اداروں میں کرپشن، تعلیمی اداروں کی زبوں حالی، بیروزگاری، اور صحت کی عدم دستیابی — وہ بنیادی نکات ہیں جن پر AAC کی جدوجہد مرکوز ہے۔ یہ تمام مسائل صرف اقتصادی نہیں بلکہ سیاسی اور شعوری مسائل بھی ہیں، کیونکہ جب ریاست اپنے عوام کو ان کے وسائل سے بھی محروم کر دے تو یہ صرف ناکامی نہیں بلکہ استحصالی سیاست کی بدترین شکل بن جاتی ہے۔
آزاد کشمیر کی عوامی ایکشن کمیٹی نے یہاں کے لوگوں کو یہ سمجھایا کہ اگر وہ خود اپنی آواز نہیں بنیں گے، تو کوئی ان کے لیے نہیں بولے گا۔ یہ تحریک اب ایک ایسا شعور بن چکی ہے جو نوجوانوں کو صرف احتجاج نہیں بلکہ اپنا مستقبل خود لکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ کمیٹی لوگوں کو ریاست سے لڑنا نہیں سکھاتی، بلکہ اپنے حقوق کا آئینی، سیاسی اور عوامی طریقے سے دفاع کرنا سکھاتی ہے۔
اگر ریاست، سیاست دان، اور مقتدر ادارے سمجھتے ہیں کہ عوامی ایکشن کمیٹی کو نظرانداز کر کے یا دباؤ ڈال کر اس تحریک کو روکا جا سکتا ہے، تو وہ ایک تاریخی بھول میں ہیں۔ کیونکہ جس تحریک کی بنیاد عوامی درد، شعور اور حق پر ہو، وہ وقتی طور پر خاموش ہو سکتی ہے، لیکن ختم نہیں ہو سکتی۔ AAC اب صرف ایک کمیٹی نہیں، بلکہ ایک علامت ہے — عوامی اتحاد، شعور، اور مزاحمت کی علامت۔
آزاد کشمیر کی عوامی ایکشن کمیٹی اس دور کی سب سے بڑی علامت ہے اس بات کی کہ عوام اب جاگ چکے ہیں۔ انہیں اب وعدوں، مفادات، اور وقتی ریلیف سے بہلایا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے اب اپنے مسائل کو پہچان لیا ہے، اپنے دشمنوں کو شناخت کر لیا ہے، اور اپنے حق کے لیے لڑنے کا راستہ اپنا لیا ہے۔ AAC اس عوامی بیداری کا نام ہے جو اب صرف آزاد کشمیر تک محدود نہیں رہے گی، بلکہ وہ پورے خطے میں شعور، اتحاد اور مزاحمت کی علامت بنے گی — اور یہی اسے ناقابلِ تسخیر بناتا ہے۔
***
Share this content:


