گورکنو! شہرِ خموشاں کو بچائو ۔۔۔ فرحان طارق

یوں تو دنیا میں مختلف ممالک کے سرمایہ دار کاروباری شخصیات مختلف ایگریمنٹ پر اکتفا کرتے ہیں اور کاورباری رحجان کو دیکھ کر انوسٹمنٹ کی جاتی ہے مگر آج ایسے شہر خاموشاں کا ذکر بھی سن لیجئے جواس انسانی جانوں کے سرمایہ کاری سے آباد ہے ۔

یہ قبرستان 4 ہزار مربع میل پر مشتمل ہےجہاں پر مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے لوگ مدفون ہیں۔

اس شہر خاموشاں کی ابتدائی بھاگ دوڑ محض چند خاندانوں کے ہاتھوں میں تھی بعد ازاں اس شہر کے مالک نے اسے مزید لیز پر دینے کا فیصلہ کیا اور یوں گورکنوں کی تعداد میں چند سالوں میں کئ گنا اضافہ ہو گیا اور گزشتہ سات دہائیوں کے دوران یہ قبرستان 12 خاندانوں کے مرہون منت ہے ۔

یہ قبرستان ان خاندانوں کے لیے سونے کی چڑیا ثابت ہوا۔ کسی کے گھر میں صف ماتم کا ہونا ان خاندانوں کے لیے کسی تہوار سے کم نہیں ہوتا قبرستان کے منتظمین گورکنوں کا کاروبار پڑوسی گائوں کے لڑائی جھگڑوں پر منحصر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان جھگڑوں کو طول دینے کے لیے یہ خاندان اپنے سرماۓ کو بھی میدان عمل میں لاتے ہیں اور خوب انوسٹ کرتے ہیں وقتاً فوقتاً اس قبرستان کا سرمایہ دار بھی رخ کرتے ہیں مگر نا کامی کا سامنا کرنا پڑتا ہےاور مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پاتے۔

اب جب پڑوس میں جنگ کا سماں تھم گیا تو یہ گورکن کافی پریشان دکھائی دیتے ہیں اور مزید کسی ایسے موقع کی تلاش میں ہیں تاکہ شہر خاموشاں کو آباد کیا جا سکے۔ صرف اتنا ہی نہیں لواحقین جب اپنے پیاروں کی قبروں کی صفائی کانٹوں کی کٹائی اور پھول پھینکنے کا مطالبہ کرتے تو اس شہر خاموشاں کے نگراں سیخ پا نظر آتے ہیں مگر اب اس علاقےکی جنتا اب ان سے سوال پوچھتی ہے مگر یہ گورکن علاقہ مکینوں کو دھمکاتے ہیں ہوۓ کہتے ہیں ہماری باتیں مانو ورنہ ہم تم کو سبق سیکھائیں گے اور شہر خاموشاں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیں گے ۔

گورکنان دعا گو ہیں کہ لوگ مرتے رہیں کاروبار چلتا رہے مگر وہ بھول جاتے ہیں ایک دن ہم بھی کسی گورکن کے ہاتھوں گوہر کی نظر ہو جائیں گے۔

****

Share this content: