پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد، خصوصاً افغان پناہ گزینوں کے لیے گزشتہ دو برس سے واپسی کی ڈیڈ لائنز دی جا رہی تھیں۔ حکومت کی جانب سے 31 مارچ کی حتمی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد دس دن کی مہلت بھی دی گئی لیکن اب گرفتاری اور ملک بدری کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ انہی متاثرین میں پاکستان کے زیر انتطام مقبوضہ جموں کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد میں مقیم افغان تاجر شیر علی اور ان کے بچے بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسی شہر میں گزاری ہے۔
مظفرآباد کی گلیوں میں ایک افغان خاندان کی کہانی
شیر علی 1991 سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ مظفرآباد میں رہ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہیں کاروبار کیا، یہیں اپنے بچوں کو اسکول بھیجا اور یہی شہر اب ان کا گھر بن چکا ہے۔ لیکن حکومتی فیصلے نے انہیں شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔
ساٹ – شیر علی:
"ہم گزشتہ پچیس سال سے یہاں رہ رہے ہیں۔ کاروبار بھی یہیں ہے، بچے پڑھ رہے ہیں، وہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ہمیں حکومت سے یہ توقع نہیں تھی۔ حکومت نظر ثانی کرے اور ہمیں وقت دے تاکہ ہمارے بچے اپنی تعلیم مکمل کر سکیں۔”
تعلیم اور خواب ادھورے
شیر علی کے بیٹے شہباز علی مظفرآباد میں ہی پیدا ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے حال ہی میں میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا لیکن اب تعلیمی سلسلہ منقطع ہونے کا اندیشہ ہے۔
ساٹ – شہباز علی:
"میں نے میٹرک پاس کیا ہے اور اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتا تھا مگر جب سے سنا ہے کہ ہمیں واپس بھیجا جا رہا ہے تو میں تذبذب کا شکار ہوں، میری تعلیم ادھوری رہ گئی ہے۔”
شیر علی کے چھوٹے بیٹے نے کبھی افغانستان دیکھا ہی نہیں۔ وہ اپنے دوستوں اور ماحول کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔
ساٹ – شیر علی کا چھوٹا بیٹا:
"ہمارے یہاں بہت دوست ہیں، ہم نے افغانستان نہیں دیکھا، ہم واپس نہیں جانا چاہتے۔”
Share this content:


