پاکستان کے زیر انتظام مقبوضہ جموں کشمیر میں حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں جلسوں کا سلسلہ جاری ہے۔
عوامی ایکشن کمیٹی کی 29 ستمبر کی پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن کال کے بعدپارلیمانی سیاسی جماعتوں نے پاکستانی عسکری اسٹیبلشمنٹ وحکومت کے زیر سایہ آل پارٹیز کانفرنس کے پلیٹ فارم سے مختلف اضلاع میں جلسوں کا اعلان کیا تھا۔
ان جلسوں کا مقصد عوامی ایکشن کمیٹی جسے جموں کشمیر کی عوام کی حقیقی وموثرآواز جانا جاتا ہے ،کی عوامی مقبولیت سے خوف زدہ ریاستی مشینری نے ان کے خلاف صف بندی شروع کردی ہے تاکہ اس کی عوامی طاقت کو ختم کیاجاسکے۔
یاد رہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی 29 ستمبر کو بنیادی عوامی مسائل کے حل کے لئے جموں کشمیر بھر میں عوامی احتجاجی تحریک شروع کرنے جارہی ہے ۔اور اسے عوام کی اکثریت حاصل ہے جس سے حکمران طبقہ کو شدید پریشانی کا سامناہے وہ عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک کو متنازع بنانے کے لئے اسے بھارتی فنڈڈ کے الزامات سمیت مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہاہے۔
گزشتہ روز ضلع پونچھ میں آل پارٹیز کی جانب سے ایک بڑا جلسہ منعقد ہوا جس میں تین سابق وزرائے اعظم سمیت موجودہ وزیراعظم چوہدری انوار الحق نے بھی شرکت کی۔
تاہم جلسے میں مقامی عوام کی شرکت نہ ہونے کے برابر رہی۔
اطلاعات کے مطابق پنڈال کی کرسیاں بھرنے کے لیے شرکا کو پاکستان کے مختلف شہروں سے بسوں کے ذریعے راولاکوٹ لایا گیا، جو شام ہوتے ہی واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
اس صورتِ حال کے باعث سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کو خالی کرسیوں سے خطاب کرنا پڑا۔
جلسے کو سوشل میڈیا پر پذیرائی حاصل نہ ہوسکی بلکہ پنڈال میں ہونے والی بد نظمی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
آل پارٹیز اتحاد آج ضلع باغ میں ایک اور جلسے کا انعقاد کرنے جا رہا ہے جس میں مبینہ طور پر سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ جلسہ حکومت اور سیاسی جماعتوں کے لیے ایک کڑا امتحان ہوگا کہ آیا وہ اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کر پاتے ہیں یا ایک بار پھر ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
واضح رہے کہ حکومتی وزیر سردار میر اکبر خان نے علما کرام پر چندہ کھانے اور جائیدادیں بنانے کے الزامات عائد کیے تھے جس کے بعد علما نے باغ جلسے کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔
Share this content:


