راولاکوٹ / کاشگل نیوز
پاکستان کے زیر انتظام مقبوضہ جموں کشمیر کے حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے ایگزیکٹو آرڈر اور صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کوئی بھی قانون بنانا اور ختم کرنا ممکن ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مسئلہ حل کرنا ہے تو ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کے لیے بھی عام معافی کا اعلان ہو جاتا ہے۔ ایک ایگزیکٹو آرڈر اور صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کوئی بھی قانون بنایا یا ختم کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اگر مسئلہ حل نہ کرنا ہو اور قانونی و آئینی راستوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی جائے تو نقص امن کی ایک معمولی ایف آئی آر بھی نہیں ختم ہوسکتی۔
جموں کشمیر میں عبوری آئین کی صورت نافذ حکومت پاکستان کے ایگزیکٹو آرڈر میں آئینی ترمیم کا اختیار مظفرآباد اسمبلی کے پاس ہے کہ وہ بل تیار کر کے دو تہائی اکثریت سے یہ ترمیم کر سکتی ہے۔ تاہم آرٹیکل 31، آرٹیکل33 اور آرٹیکل 56 میں یہ ترمیم نہیں کی جا سکتی۔
ماہرین نے کہا کہ آرٹیکل 33 کے مطابق آئینی ترمیم کا اختیار مظفرآباد اسمبلی کے پاس ہے، تاہم آرٹیکل 31 کے سب آرٹیکل دو کے مطابق مظفرآباد اسمبلی کوئی بھی قانون سازی حکومت پاکستان کی پیشگی منظوری کے بغیر نہیں کر سکتی۔ آرٹیکل 56 حکومت پاکستان کی اس خطے میں ذمہ داریوں کو تحفظ دیتا ہے، جس کے مطابق حکومت پاکستان کسی بھی وقت انتظامات اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے۔
یوں اگر آئینی طریقہ کار میں الجھایا جائے تو کوئی بھی آئینی معاملہ حل ہونا تقریباً ناممکن ہے، لیکن اگر حل کرنے کی کوشش کی جائے تو چٹکیوں میں یہ تبدیلی کی جا سکتی ہے اور بڑے سے بڑے معاملے پر قانون سازی سے آئینی ترمیم تک کوئی کام ناممکن نہیں ہے۔
سرمایہ دارانہ ریاستوں اور بالخصوص نوآبادیاتی خطوں میں آئینی اور قانونی پیچیدگیوں کو اس نوعیت سے الجھایا جاتا ہے کہ عام آدمی انہیں سمجھنے سے ہی نہ صرف قاصر ہو، بلکہ ان امور کی تشریح کے نام پر بیوروکریسی ریاستی مفادات اور بالادستی کو تقویت پہنچانے کا فریضہ بطریق احسن نبھا سکے۔
Share this content:


