اسلام آباد /کاشگل نیوزخصوصی رپورٹ
پاکستان کے زیر انتظام مقبوضہ جموں و کشمیر میں جموں و کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے پیش کیے گئے چارٹر آف ڈیمانڈ پر حکومت کی جانب سے بعض شقوں پر آئینی پیچیدگیاں ظاہر کرنے کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی 29 ستمبر کو ریاست گیر شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی صورت میں اس احتجاجی عمل سے جہاں عوامی زندگی کو مفلوج ہو گی ، وہیں ریاستی معیشت کو بھی بھاری نقصان کا سامنا کرنے پڑے گا۔
ریاست گیر ہڑتال کے باعث تعلیمی ادارے، تجارتی مراکز اور دفاتر مکمل طور پر بند ، پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی مریضوں، طلبہ اور ملازمین کو شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شہروں اور دیہی علاقوں میں اشیائے خوردونوش کی ترسیل بھی متاثر ہو گی جس سے روزمرہ زندگی کے ساتھ ساتھ مختلف اضلاع سے اطلاعات کے مطابق بعض شہریوں نے ہڑتال کے دوران سخت پریشانی اور بے بسی کا اظہار کیا ممکنہ ہڑتال سے جہاں شہری زندگی متاثر ہو گی وہاں معاشی نقصان سے تجارتی سرگرمیوں اور ٹرانسپورٹ کے تعطل سے ایک روز میں کروڑوں روپے کا نقصان کاروباری طبقے کو ایک دن کی بندش سے نہ صرف مقامی تجارت بلکہ چھوٹے دکانداروں اور مزدور طبقے کو بھی ناقابل تلافی نقصان ہو گا ۔
سرکاری محصولات متاثر ہونے سے ریاستی بجٹ پر بہت اثر پڑنے کا خدشہ ہے۔
مزاکراتی عمل میں ناکامی کے بعد حکومتی موقف کے مطابق حکومت جموں و کشمیر کا کہنا ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں شامل بعض نکات آئینی دائرہ کار سے باہر ہیں اور ان پر فوری طور پر عملدرآمد ممکن نہیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق یہ نکات ’’آزاد جموں و کشمیر عبوری آئین 1974‘‘ اور پاکستان و جموں و کشمیر کے درمیان طے شدہ انتظامی معاہدات سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان پر کسی بھی قسم کا فیصلہ وفاقی حکومت کی مشاورت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم حکومت نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ عوامی مسائل کے حل اور جائز مطالبات کی تکمیل کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے اور بات چیت کا دروازہ کھلا ہے ۔
دوسری جانب عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کے مطالبات عوام کے بنیادی حقوق سے متعلق ہیں اور حکومت کی جانب سے آئینی پیچیدگیوں کا بہانہ بنا کر انہیں مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
کمیٹی نے واضح کیا کہ اگر حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی تو ہم احتجاج کرنے پر مجبور نہ ہوتے ۔ اشرافیہ کی مراعات میں اور بارہ مہاجرین کی نشستوں سے حکومت نے مذاکرات سے راہِ فرار اختیار کی ،ہمارے جائز مطالبات تسلیم نہ کیے تو احتجاجی تحریک کو مزید وسعت دی جائے گی، جس کے نتائج کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہو گی۔
واضح رہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی نے حالیہ مہینوں میں مہنگائی، بجلی کے بلوں میں اضافے اور عوامی سہولتوں کی کمی کے خلاف ایک منظم چارٹر آف ڈیمانڈ حکومت کو پیش کیاتھا۔
کمیٹی کے مطابق یہ مطالبات عام شہریوں کی زندگی کو آسان بنانے اور ریاستی وسائل کو عوامی فلاح کے لیے بروئے کار لانے سے متعلق ہیں۔
تاہم حکومت کا مؤقف ہے کہ ان میں سے بعض نکات جموں و کشمیر حکومت کے آئینی دائرہ اختیار سے تجاوز کرتے ہیں۔
29 ستمبر کی ہڑتال نے ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ عوامی مطالبات اور حکومتی آئینی حدود کے درمیان موجود فاصلہ ریاست میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا باعث بن رہا ہے۔
مبصرین کے مطابق اگر حکومت اور عوامی نمائندوں کے درمیان مؤثر مذاکرات کا عمل شروع نہ کیا گیا تو اس کشیدگی کے اثرات مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔
Share this content:


