مظفرآباد /کاشگل نیوز
پاکستان کے زیر انتظام مقبوضہ جموں کشمیر میں 29 ستمبر کو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے کی جانے والی پہیہ جام ہڑتال کے دوران اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران شہید اور شدید زخمی ہونے والے پولیس اہلکار آج بھی کسی مسیحا کے منتظر ہیں، جبکہ دوسری جانب محکمہ پولیس میں میڈلز اور تعریفی اسناد کے لیے افسران کے چہیتوں کی دوڑیں شروع ہوچکی ہیں۔
ذرائع کے مطابق ایڈیشنل ایس پی سمیت 12 منظورِ نظر افسران کے نام محکمہ پولیس کے اعلیٰ سطحی انعامات اور میڈلز کے لیے بھجوائے گئے ہیں، تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ شہید اہلکاروں اور زخمی پولیس جوانوں میں سے کسی ایک کا بھی نام اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔
ایس ایس پی مظفرآباد کی جانب سے تیار کردہ میڈل کی سفارشات میں بھی ہڑتال کے روز جان کا نذرانہ پیش کرنے والے اہلکاروں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے، جس پر عوامی اور سماجی حلقوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ شہریوں اور پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ پولیس میں ایک بار پھر من پسند اور خاص عام کی پالیسی غالب آ گئی ہے۔ جو افسران محض گاڑیوں پر گھومتے رہے، انہیں انعامات کی فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے، جبکہ جو اہلکار میدان میں خون بہاتے رہے، وہ آج گھروں میں بے یار و مددگار پڑے ہیں۔
ذرائع کے مطابق زخمی اہلکار طویل عرصے سے علاج اور مالی امداد کے منتظر ہیں، لیکن محکمے کے اعلیٰ افسران نے ان کی حالت زار پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو محکمہ پولیس کے اندر بددلی مزید بڑھے گی، اور مخلص اہلکاروں کا مورال بری طرح متاثر ہوگا۔عوامی و سماجی تنظیموں نے انسپکٹر جنرل پولیس آزاد کشمیر اور چیف سیکرٹری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے کا فوری نوٹس لیں، 29 ستمبر کی ہڑتال کے دوران شہید و زخمی ہونے والے اہلکاروں کے اہلِ خانہ کو انصاف فراہم کریں، اور انصاف پر مبنی پالیسی کے تحت ان کے نام بھی اعزازی فہرست میں شامل کیے جائیں۔عوام کا کہنا ہے کہ “افسران کے لیے عیش و آرام، اور میدان میں خون دینے والوں کے لیے خاموشی” والا نظام اگر نہ بدلا گیا تو محکمہ پولیس میں مایوسی کی لہر خطرناک سطح تک پہنچ سکتی ہے۔
Share this content:


