راولاکوٹ/ کاشگل نیوز
جامعہ پونچھ کے طلبہ نے پیر کے روز جامعہ کے مرکزی دروازوں کو تالے لگا کر احتجاج کیا۔
طلبہ فیسوں میں حالیہ اضافہ واپس لینے، ڈپٹی ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز کی معطلی، ٹرانسپورٹ کی سہولیات کی فراہمی اور طلبہ کی نمائندگی پر مشتمل اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں کے قیام کا مطالبہ کر رہے تھے۔
جامعہ انتظامیہ کی جانب سے طلبہ کے ساتھ مذاکرات کیے گئے اور فوری طور پر ڈی ڈی ایس اے کو عہدے سے ہٹانے کا حکم جاری کیا گیا۔ اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ کی سہولیات بہتر کرنے سمیت دیگر مطالبات کی منظوری کے لیے فوری اقدمات کرنے کا سرکلر جاری کیاگیا۔ تاہم فیسوں میں کمی کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا۔
طلبہ نے مذاکرات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا اور منگل کے روز سے یونیورسٹی کے تمام کیمپسوں کے مرکزی دروازے بند کر کے احتجاجی دھرنے دینے کا اعلان کیا۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے ایک اور حکم جاری کرتے ہوئے منگل اور بدھ کو یونیورسٹی میں کلاسیں معطل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ تاہم امتحانات شیڈول کے مطابق جاری رکھنے اور ریسرچ کے کام کے لیے بھی جامعہ کو کھلا رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
طلبہ کا مطالبہ ہے کہ یونیورسٹی نے جو حالیہ فیسوں میں اضافہ کیا ہے، اسے فوری واپس لیا جائے۔ تاہم یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف ہے کہ فیسوں میں اضافے کا فیصلہ حکومتی سطح پر کیا جاتا ہے، اس لیے یونیورسٹی اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ طلبہ کا موقف تھا کہ اس حوالے سے تحریری طور پر بتایا جائے کہ یونیورسٹی کا فیسوں میں اضافے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ طلبہ کے مطابق تحریری طور پر لکھ کر دینے سے انکار کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں جامعات کی فیسوں کا تعین کرنے کا کوئی اختیار حکومت کے پاس نہیں ہے، نہ ہی ایسا کوئی میکنزم بنایا گیا ہے۔ جامعات کے فی سٹرکچر کا تعین یونیورسٹی سینڈیکیٹ اور سینیٹ میں ہی کیا جاتا ہے۔ تاہم اس خطے کی یونیورسٹیوں میں فیسوں میں اضافہ مالی بحران پر قابو پانے، مختلف شعبہ جات میں داخلوں کے رجحان کو متناسب بنانے سمیت دیگر مقاصد کے تحت کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ جموں کشمیر میں جامعات مالی بحران کا شکار ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہونے کے بعد پاکستان کی وفاقی حکومت نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے فنڈز میں کٹوتی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایچ ای سی نے پاکستانی زیرانتظام جموں کشمیر کی جامعات کے فنڈزمیں بھی 60 فیصد تک کی کٹوتی کر دی ہے۔
اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے گزشتہ سال جامعات کی طرف سے حکومت سے تحریک کی گئی تھی کہ وہ یونیورسٹیوں کو مالی بحران سے بچانے کے لیے فنڈز فراہم کرے۔ یونیورسٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے یونیورسٹیوں کو فنڈز تو جاری کیے ہیں، لیکن پونچھ یونیورسٹی کو یہ فنڈز جاری نہیں کیے گئے۔ یوں پونچھ یونیورسٹی شدید مالی خسارے کا شکار ہے۔
حکومت کی جانب سے جامعات تو بنائی جا رہی ہیں، لیکن ایچ ای سی کی جانب سے فنڈز میں کٹوتی کے بعد حکومت جامعات کو مالی معاملات چلانے کے لیے فیسوں کو واحد ذریعے کے طور پر رکھنا چاہتی ہے۔ اس خطے کی جامعات میں طلبہ محض فیسیں کم ہونے کی وجہ سے زیر تعلیم ہیں۔ کوالٹی ایجوکیشن کے حوالے سے ان جامعات کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ تاہم اب اگر فیسوں میں اضافہ کر کے مالی معاملات چلانے کی کوشش کی جائے گی تو پھر ان جامعات میں داخلوں کا رجحان کم ہوتا جائے گا۔
رواں سال بھی جامعات میں داخلوں کی شرح میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ چند شعبے ہی ایسے ہیں، جن میں طلبہ کی ایک اچھی تعداد داخلے لے رہی ہے۔ سوشل سائنسز اور لٹریچر کے شعبوں میں داخلے نہ ہونے کے برابر ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے یونیورسٹیوں پر مستقبل میں فیکلٹیوں کا بوجھ بڑھنے کا بھی خدشہ ہے۔
مالی خسارے کا بوجھ طلبہ اور والدین پر ڈالنے کی بجائے جامعات کو خودکفیل بنانے کے لیے مارکیٹ ، صنعت اور ذراعت کے ساتھ منسلک کرنے کی ضرورت ہے۔ محض جامعہ پونچھ، جو زرعی یونیورسٹی کے طور پر جانی جاتی ہے، اگر زراعت، باغبانی اور لائیو سٹاک جیسے شعبوں پر ہی توجہ دے اور سرکاری محکموں کے ساتھ اشتراک کر کے اپنی فیکلٹیوں کو پیداوار کے ساتھ منسلک کر لے تو نہ صرف مقامی مارکیٹ کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں، نیا روزگار پیدا کیا جا سکتا ہے، بلکہ یونیورسٹی کو بھی مالی طور پر خودکفیل بنانے کی جانب راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ آئی ٹی کے شعبے کو بھی اسی بنیاد پر ترقی دی جا سکتی ہے۔
تاہم اس کے لیے نہ صرف تعلیم کے معیار کو بڑھانے کی ضرورت ہے، بلکہ حکومتی سطح پر منصوبہ بندی بھی ناگزیر ہے۔
Share this content:


