پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی سیاست میں ایک تصویر نے سب کو چونکا دیا۔ یہ تصویر کسی عام شہری کی نہیں تھی، بلکہ ایک ایسے شخص کی تھی جو ایک سال پہلے تک اسی حکومت کا بااختیار وزیر تھا،جاوید بٹ۔
وہی جاوید بٹ جو پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر مہاجرین کی نشست سے الیکشن جیت کر اسمبلی کے ایوان تک پہنچے، وہی جو یکم نومبر 2023 کو وزیرِ ٹرانسپورٹ بنے اور چودہ مہینوں تک وزارت کا قلمدان سنبھالتے رہے۔ لیکن آج، حلف برداری کی تقریب کے دروازے پر وہ بے بسی کی مثال بنے کھڑے تھے۔
مظفرآباد میں دسویں اسمبلی کے سولہویں وزیر اعظم کی حلف برداری سیاسی جوش پروٹوکول سیکیورٹی اور شخصیات کا ہجوم۔ وزراء کی آمد جاری تھی، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی تقریب میں موجود تھے۔ سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے تھےاور انہی انتظامات کی سختی میں ایک ایسا لمحہ پیدا ہوا جس نے انتظامی رویے کی اصلیت کھول کر رکھ دی۔
جاوید بٹ بار بار اپنا تعارف کرواتے رہےمیں ممبر اسمبلی ہوں میرے ساتھ لوگ ہیں مجھے جانے دیں لیکن جواب تھا: خاموش دروازہ اور لاتعلقی سے کھڑا ایک سپاہی۔
ایک سابق وزیر موجودہ ممبر اسمبلی ایوان کا حصہ حکومتوں کا رکن مگر دروازہ پھر بھی نہ کھلا۔
ان کا بار بار کہناکہ میرے پاس کچھ نہیں مجھے اندر جانے دیں ایک شخصی درد نہیں تھا، یہ دراصل ہمارے سیاسی نظام کی بے حسی کی گواہی ہے۔وہ تصویر جو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، صرف جاوید بٹ کی بے بسی کی نہیں، بلکہ اس نظام کی بے رحمی کی بھی تصویر ہے جہاں اختیارات کا سارا توازن کرسی کے ساتھ بنتا اور بکھرتا ہے۔
آج وہی جاوید بٹ جو کبھی اہم اجلاسوں میں مرکزی نشست پر بیٹھتے تھے جن کے دست خط عدم اعتماد کی تحریکوں میں اہم سمجھے جاتے تھے۔انہیں ایک گیٹ پر شناخت ثابت کرنے کے باوجود روک دیا گیا۔
اس تصویر نے ایک سوال پیدا کیا ہےکہ کیا ہمارے ادارے شخصیات کا احترام کر کے مضبوط ہوتے ہیں یا اپنے نظام کی شفافیت اورشائستگی سے؟کسی بھی ملک کے منتخب نمائندے کی تذلیل دراصل عوام کے ووٹ کی تذلیل ہوتی ہے۔ چاہے سیاسی اختلاف ہو چاہے پارٹی بدل جائے چاہے حکومت تبدیل ہومنتخب نمائندوں کے ساتھ سلوک میں وقار اور ترتیب ضروری ہوتی ہے۔
آج جاوید بٹ کے ساتھ یہ واقعہ ہوا ہے، کل یہ کسی اور کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔یہ تصویر وقعت نہ ہونے کا تاثر دے رہی ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ یہ تاثر جاوید بٹ کا نہیں بلکہ اس سوچ کا ہے جو انتظامی طاقت کو انسانیت قانون اور اخلاقیات پر ترجیح دیتی ہے۔
اگر ایک سابق وزیر اور ایم ایل اے دروازے پر بے بس کھڑا ہو سکتا ہے تو عام آدمی کی کیا حیثیت باقی رہتی ہے؟یہ واقعہ ہمیں بتا رہا ہے کہ طاقت عارضی ہے وزارتیں عارضی ہیں پروٹوکول عارضی ہیں اصل چیز نظام کی شائستگی ریاستی رویہ اور اداروں کا احترام ہے۔
آج یہ تصویر ایک آئینہ ہے جس میں دیکھ کر ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے۔
٭٭٭
Share this content:


