جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کے بیچ پھنسی اس خطے کی سادہ لوح عوام آج موسمِ خزاں کے ان پتوں کی مانند ہے جو ہوا کی ایک ہلکی سی جنبش پر اپنی سمت کھو بیٹھتے ہیں۔
گزشتہ تین برسوں سے پاکستان زیرِ انتظام کشمیر سیاسی تجربات کی زد میں ہے،ہر نیا تجربہ پُرانی امیدوں کو زخم دیتا ہے، اور شرحِ غربت 61 فیصد کی دہلیز چھوتے ہوئے اس خطے کے اجتماعی احساسِ محرومی کو مزید گہرا کر رہی ہے۔
ناامیدی اور مایوسی کی کرنیں ہر گزرتے دن کے ساتھ تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ نوجوان معاشی جلاوطنی کے لیے بے تاب ہیں، اور ایسے میں چہروں اور مہروں کی تبدیلی کو قسمت کی کایا پلٹنا سمجھا جانے لگا ہے۔
کہیں نئی حکومت کے استقبال کے لیے انقلابی دل کشادہ کیے جا رہے ہیں، تو کہیں حاکم وقت سے زر۔ در۔ نام ۔جام اور دام لینے کے لیے قلم کار اپنے حروف کو گنگا میں غسل دینے کی سعی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف بعض حلقے تو ایسے دکھائی دیتے ہیں کہ گویا آبِ زمزم سے وضو کر کے اپنے تجزیے لکھتے ہوں۔
بہر حال، بادشاہ کے پرانے وفادار جب وفاداریاں بدلتے ہیں تو الزام لگاتے ہیں کہ بادشاہ کی طرزِ حکمرانی ناقص تھی یہ الگ بات ہے کہ بادشاہ انہی کے مشوروں پر چلتا رہا۔ خطے میں جہاں اندھی تقلید پسندی بڑھ رہی ہے، وہیں سیاسی شعور اسی رفتار سے کم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ عوام ہر نئی چال کو تبدیلی اور ہر مہرے کو مسیحا سمجھ بیٹھتے ہیں۔
یہاں تحریکیں سیاسی نظریات کے بغیر چلتی ہیں اور انقلاب کے داعی وہی لوگ ہوتے ہیں جو حاکم وقت کی جی حضوری کی رحجانی لکیر کو چھو کر گزرتے ہیں۔ یہاں نعروں اور خوابوں کی بلندی ہمالیہ سے بھی اونچی ہے مگر حقائق ہمالیہ کے نقطہ آغاز تک نہیں پہنچتے۔
امجد اسلام امجد نے کیا خوب کہا تھا:
ہم لوگ
دائروں میں چلتے ہیں
دائروں میں چلنے سے
دائرے تو بڑھتے ہیں
فاصلے نہیں گھٹتے
یہی دائرے آج بھی اس خطے کی سیاسی رفتار کا احوال ہیں ۔گرد اڑتی رہتی ہے، درد بڑھتا جاتا ہے، اور صبح دم ستاروں کی تیز جھلملاہٹ کو روشنی کا پیش باب سمجھ لیا جاتا ہے۔
اک کرن ملتی ہے تو اُسے آفتاب کہہ دیا جاتا ہے۔
دائرے بدلنے کو انقلاب سمجھ لیا جاتا ہے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ اب رحجانی لکیر کے قریب آنا ہو گا۔وہ لکیر جہاں سے شعور کی کرنیں جنم لیتی ہیں۔ اب شور اور غور کے بیچ کسی ایک نقطے پر رکنا ہو گا۔ مسیحاؤں اور مسائل میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا ہو گی۔ وفاداریوں سے ذمہ داریوں کی طرف سفر کرنا ہو گا۔
اور سب سے بڑھ کر، دوسروں کو نہیں خود کو سب کا لیڈر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ پہلی اینٹ ہے جس پر حقیقی سیاسی بیداری کی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے، ورنہ یہ خطہ یوں ہی دائروں میں چلتا رہے گا، فاصلے بڑھتے رہیں گے، اور منزل ہمیشہ تمنا ہی رہے گی۔
٭٭٭
Share this content:


