تحریک میں تضاد کی بنیادی اہمیت ۔۔۔ الیاس کشمیری

تضاد کسی بھی تحریک میں بنیادی جوھر ہوتا ہے، تحریک کی نوعیت چاہے جو بھی ہو تحریک کا درست تجزیہ تضاد کی بنیاد پر ہی کیا جا سکتا ہے۔

تحریک کی حاصلات، تحریک کا کریکٹر، تحریک کی صلاحیت، امکانات، خدشات ، ضرورتوں اور مستقبل کی حکمت عملی کے سارئے سوالات کا تناظر تحریک میں موجود تضاد پر ہی قائم کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں جاری عوامی تحریک حکمران طبقے اور عوام کے درمیان موجود تضاد پر کھڑی ہے اور یہ تضاد تین سالا دورانیے میں اتنا گہرا ہوا کے عوام نے یکطرفہ ، یک زباں حکمران طبقے کو مسترد کیا، اور متبادل کے طور پر جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی پر بھرپور اعتماد کیا۔

یاد رہے یہ اعتماد عوام نے اس لیے کیا کہ جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے مسترد شدہ حکمران طبقے کے بارے میں واضح اور دو ٹوک موقف اپنایا کہ یہ 52 حکمران عوام دشمن ہیں، یہ موقف عوام کی امنگوں کا ترجمان تھا۔ اسی دوٹوک موقف کی بنیاد پر ممبران کور کمیٹی کو متبادل قیادت کے طور پر عوامی تحریک نے عزت بخشی۔

عوامی تحریک کا کردار ماضی میں کیا تھا آج کیا ہے اس پر بحث ہو سکتی ہے لیکن یہاں اس سے ہٹ کر حکمران طبقے اور عوام کے درمیان موجود تضاد کی بنیاد پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست نے اس تضاد کو کم کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا لیکن نا کامی ہوئی، یہ ایک اور حربہ استعمال کیا گیا کہ حکومت کو دوبارہ تشکیل دیا گیا اور انھیں 52 حکمرانوں کو اوپر نیچے ادھر ادھر کر کے وزارتوں کے چہرے بدلے ہیں۔ وزارتوں کے چہرے بدلنے سے نظام پر، عوام کے کردار پر اور تحریک کی صلاحیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ان چہروں کی تبدیلی پر عوامی تحریک میں سرگرم کردار ادا کرنے والا کوئی بھی ایسا فرد جس کو تحریک نے کسی بھی سطح کی قیادت کے طور پر تسلیم کیا تھا وہ اگر حکمران طبقے کے استقبال کے لیے کھڑا ہو گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عوام اور حکمران طبقے میں موجود تضاد کو گہرا کرنے کے بجائے اسے کم کرنے کے لیے عوام کی صفوں سے نکل کر حکمرانوں کی صفوں میں شامل ہو گیا ہے۔

سوال یہاں پارٹی کا ہر گز نہیں ہے کیونکہ جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی ایس او پیز نے بھی پارٹیوں کے فرق کو واضح نہیں کیا لیکن حکمران طبقے اور عوام کے مفادات اور کردار میں بالکل واضح فرق کیا ہے، یہ تحریک محض موجود حکومتی وزارتی چہروں کیساتھ تضاد نہیں رکھتی بلکہ حکمران طبقے کیساتھ تضاد پر کھڑی تھی اور کھڑی ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ اصلاحات کی تحریک ہے اور اپنی اپنی پارٹی پروگرام میں شامل ہونا تحریک کے تناظر میں غلط نہیں ہے اور ایس او پیز کے مطابق ہے یہ بالکل تحریک کے منافی موقف ہے۔

پارٹی پروگرام میں شامل ہو کر تحریک کے حق میں موقف رکھنا درست عمل ہو سکتا ہے لیکن وہی حکمران طبقہ جس کیساتھ تضاد میں عوامی تحریک کھڑی ہے یہ وہی حکمران ہیں جو کل بھی حکومت میں تھے اور عوام دشمن تھے آج بھی حکومت میں ہیں اور عوام دشمن ہیں۔ ان کے گلے میں ہار ڈالنا، استقبال کرنا بالکل ایس او پیز کا حصہ نہیں ہے۔ یہ عوام اور حکمران طبقے میں موجود تضاد کی بنیاد پر قائم صف بندی میں حکمران طبقہ کے ساتھ کھڑئے ہونے کا واضح اعلان ہے۔

یہ یاد رکھیں کہ یہ عوامی تحریک اول دن سے اپنے اندر حاصلات رکھتی ہے جس دن آغاز ہوا اسی دن سے بجلی کے بلات سے عوام کو نجات ملی، یہ تحریک اپنے اندر عزت رکھتی ہے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے فرد کو اس کے متحرک کردار کے مطابق تحریک نے عزت دی۔ یہ تحریک اپنے اندر انتقام رکھتی ہے ، جہاں تحریک نے عزت دی وہاں بہت زیادہ عزت پانے والے تحریک سے دستبردار ہوئے تو ان سے خوفناک انتقام لیا۔ انتقام تو جاری ہی رکھے گی۔

تحریک نے ایک موقع پر تریکنی بھی لگائی گھسیٹا ہے تحریک نے بہت سارے لوگوں کو اور اب تحریک اپنے اندر چھاننی بھی رکھتی ہے جو وقت گزرنے کیساتھ ساتھ چھانے گی اور چھاننی سے تحریک میں منظم صف بندی ہو گی۔

عوام اور حکمرانوں کے درمیان موجود تضاد کو گہرا کرنے کی جدوجہد کرنے والے کو تحریک عزت دے رہی ہے اور دے گی۔ اور اس تضاد کو کم کرنے کی کوشش کرنے والے کو تحریک ذلیل و رسوا کرے گی۔

جان لو عوام دشمن حکمرانوں کے خلاف درست موقف اپنانے پر تحریک نے جہاں آپ کو پہنچایا کبھی نہیں پہنچ سکتے تھے۔ اسے سمجھ کر عوام سے معافی مانگ لینی چاہیے یہ بڑا کردار ہو گا۔

Share this content: