دنیا کے مختلف خطوں جنوبی ایشیا، افریقہ، انڈونیشیا، سری لنکا، نیپال، بنگلہ دیش اور آزاد جموں کشمیر میں طاقتور عوامی تحریکیں بارہا ابھریں، مگر اکثر پائیدار تبدیلی نہ لا سکیں۔
کسی بھی عوامی جدوجہد کی کامیابی صرف جذبات، نعروں یا بڑے ہجوم پر نہیں بلکہ ریاستی ڈھانچے، معاشی نظام، طبقاتی طاقت اور عالمی سرمایہ دارانہ ساخت پر منحصر ہوتی ہے۔
ریاست حکمران طبقے کا ہتھیار:
چہرے بدلتے ہیں ، نظام وہی رہتا ہےریاست کبھی بھی غیر جانبدار ادارہ نہیں ہوتی۔ پولیس، فوج، عدلیہ، بیوروکریسی اور پارلیمنٹ اصل میں اس نظام کی حفاظت کرتے ہیں جو حکمران طبقےسرمایہ داروں، جاگیرداروں، سیاسی اشرافیہ اور عالمی مالیاتی اداروں کے مفاد میں ہو۔
اسی لیے سری لنکا میں عوام نے ایوانِ صدر پر قبضہ کیا، لیکن ریاستی ڈھانچہ وہی رہا، پالیسیاں نہ بدلیں۔
نیپال میں حکومتیں بدلتی رہیں، مگر نظام نہ بدلا۔ بنگلہ دیش میں انتخابی تنازعات رہے مگر طاقت کا مرکز جوں کا توں رہا۔
افریقہ میں فوجی و سیاسی اشرافیہ کی گٹھ جوڑ نے متعدد تحریکوں کو ناکام بنایا۔
جب تک ریاستی ڈھانچہ نہ بدلے، حکمرانوں کی تبدیلی بے معنی رہتی ہے۔ تحریکوں میں طبقاتی سمت کا فقدان صرف اخلاقی غصہ کافی نہیں،پائیدار سماجی و معاشی تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب جدوجہد کی بنیاد واضح طبقاتی پروگرام پرہو۔زیادہ تر تحریکوں میں طبقاتی مطالبات کمزورسرمایہ دارانہ ڈھانچے کے خلاف واضح موقف نہیں رکھتے۔صرف بدعنوانی، مہنگائی اور نااہلی کے نعرےاقتصادی نظام کی تبدیلی کا کوئی جامع نقشہ نہیںہیں ،ایسا غصہ عارضی ثابت ہوتا ہے، اور نظام اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔
انقلابی قیادت اور نظریاتی تنظیم کی عدم موجودگی:
کوئی بھی تحریک محض غصے سے انقلاب میں تبدیل نہیں ہوتی۔اس کے لیے ضروری ہے کہ نظریاتی وضاحت تربیت یافتہ تنظیم منظم قیادت مستقل حکمتِ عملی زیادہ تر تحریکیں بے سمت اور قیادت کے بغیرانتشار کا شکارسوشل میڈیا کی جذباتی لہر پر سواراور وقتی ابال پر مبنی ہیں۔
“انقلابی جماعت کے بغیر، عوامی طاقت دیرپا تبدیلی نہیں لا سکتی۔”
عالمی سرمایہ دارانہ نظام مقامی تحریکوں کو توڑ دیتا ہے۔جن ملکوں میں تحریکیں ابھریں نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، افریقہ اور آزاد جموں کشمیر وہ سب عالمی معیشت سے جڑے ہوئے ہیں۔ جو حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں کرنسی و تجارت کنٹرول کرتی ہیں، سیاسی دباؤ بڑھاتی ہیں اور ایسی تبدیلی روک دیتی ہیں جو سرمایہ دارانہ مفادات کو چیلنج کرے۔
تحریکیں مقامی ہوتی ہیں مگر نظام عالمی، اسی تضاد میں تحریکیں شکست کھا جاتی ہیں۔
نامکمل طبقاتی شعور :
طبقاتی جدوجہد تب مؤثر ہوتی ہے جب عوام اپنے دشمن کو پہچانیں۔
زیادہ تر عوامی تحریکیں مخصوص حکمرانوں،ججوں،وزیروں،یا بیوروکریٹس کو اپنا دشمن سمجھتی ہیں، جبکہ اصل مسئلہ پورا سرمایہ دارانہ ڈھانچہ ہوتا ہے۔اسی لیےایک حکمران ہٹتا ہےدوسرا ویسا ہی حکمران آ جاتا ہےنظام تبدیل نہیں ہوتا۔
معاشی دباؤ،غربت ،عوام کو طویل جدوجہد سے روکتی ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے طاقتور ہتھیار غربت ہے۔بھوک، بیروزگاری اور روزمرہ مسائل عوام کی مزاحمت کو محدود کر دیتے ہیں۔
سری لنکا میں مہنگائی نے عوام کو تھکا دیا، نیپال میں روزمرہ مشکلات نے جدوجہد کو کمزور کیا ،بنگلہ دیش میں معاشی خوف نے لوگوں کو پیچھے دھکیل دیا، افریقہ میں مہنگائی نے مزاحمت جاری رکھنا مشکل بنا دیا۔
تحریکیں ناکام نہیں ہوتیںنظام انہیں ناکام بناتا ہے۔نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا، انڈونیشیا، افریقہ آزااد جموں کشمیر کی تحریکیں کمزور نہیں ہیں ،وہ ایک مضبوط سرمایہ دارانہ ریاستی ڈھانچے سے ٹکرا گئیں۔
پائیدار تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ واضح طبقاتی نظریہ،انقلابی قیا دت ، منظم سیاسی ڈھانچہ ،عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی صحیح سمجھ درست حکمتِ عملی، صرف جذبات نہیں عوام کی مستقل تنظیم، جب تک یہ عناصر موجود نہ ہوں، طاقتور عوامی تحریکیں بھی نظام کو نہیں بدل سکتیں۔
***
Share this content:


