مظفرآباد / کاشگل نیوز
پاکستان کے زیر انتظام مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق وزیراعظم چوہدری انوارالحق نے اڑھائی سال تک عوام کو میرٹ اور کفایت شعاری کا چورن خوب بیچالیکن ممتاز صحافی طارق نقاش نے انوارالحق کے دعوؤں کا کچا چٹھا کھول دیا ہے ۔
وہ ایک چھوٹی کلٹس کار (MDGB-196) میں گھومتے،اور دوسروں کو اپنی مشہور ِ زمانہ للکار سے طعنہ دیتے کہ "وہ دفتری اوقات کے بعد اُن کی طرح نجی گاڑی استعمال کیوں نہیں کرتے؟” تاہم، وہ یہ بھولے بیٹھے رہے کہ بہت سے لوگ جانتے تھے کہ ان کی کلٹس بھی ایک سرکاری گاڑی ہی تھی جس پر پرائیویٹ نمبر پلیٹ لگائی گئی تھی۔ لیکن یہ صرف وہ سطحی فریب تھا، جسے ہر کوئی دیکھ سکتا تھا۔ حقیقت اس سے آگے ہے، اور اُسے ریکارڈ پر لانا ضروری ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو اب بھی اس مفروضے پر یقین رکھتے ہیں کہ چوہدری انوارالحق باقیوں سے بہرحال مختلف تھے۔
یہ بات انکے پکے مداحوں کو اگر دھچکا نہ بھی دے، حیران ضرور کر دے گی کہ کہ جناب انور الحق نے اپنے اہل خانہ، جن میں انکی وہ اہلیہ بھی شامل ہیں جن کے بارے انہوں نے حال ہی میں ایک پلانٹد انٹرویو میں ڈرامائی انداز میں یہ دعویٰ کیا کہ “وہ ٹیوشن پڑھا کر ان کے اخراجات پورے کرتی رہی ہیں، کو ایک ، دو ، تین نہیں، بلکہ چھ،سات سرکاری گاڑیاں فراہم کی ہوئی تھیں۔
ان گاڑیوں میں ایک سیاہ رنگ کی پانچ دروازوں والی پراڈو جیپ، GA-727، ایک سلور رنگ کی پانچ دروازوں والی پراڈو جیپ، MRGA-040، ایک سرمئی ٹویوٹا کیمری، MDGC-222، ایک سفید ٹویوٹا آلٹس، MDGC-333 (یہ گاڑی ان کیلئے بطور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی خریدی گئی تھی جس پر وہ قانون ساز اسمبلی کے سپیکر کے عہدے کے علاوہ فائز تھے)، ایک سفید پانچ دروازوں والی لینڈ کروزر جیپ X68-3446، ایک سیاہ KIA سورینٹو، MDGB-230، ایک سیاہ ٹویوٹا فارچونر جیپ، GA-064 ( یہ وہ گاڑی ہے جو اب انہوں نے “سابق وزیراعظم کی مراعات” کے طور پر رکھ لی ہے)۔ یہ تمام گاڑیاں پرائیویٹ نمبر پلیٹس کے ساتھ چلائی جاتی تھیں تاکہ پہچانی نہ جائیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جناب انوارالحق ایک رسم کے طور پر روزانہ مبینہ مافیاز کو ہدف ملامت بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے پیشرو وزرائے اعظم کو سرکاری خزانہ سے اصراف کا مرتکب بھی گردانتے رہے، مگر، جب ایک طرف وہ عوام کی آنکھوں میں کلٹس کے استعمال کے ذریعے دھول جھونک رہے تھے، تو دوسری طرف انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے صرف سات ماہ بعد ہی خاموشی سے سابق وزرائے اعظم کی مراعات کے قانون کو تبدیل کر دیا تھا —یعنی منصب سے فراغت کے بعد ملنے والی گاڑی کے انجن کی استعداد کو اٹھارہ سو سی سی سے بڑھا کر تین ہزار سی سی کیا،رہائشگاہ پر چار سپاہی معہ ایک بالا پولیس اہلکار کی بطور پولیس گارد تعیناتی شامل کی، اور گریڈ گیارہ کے ذاتی معاون کو گریڈ سولہ کے ذاتی معاون سے اپ گریڈ کیا۔
اسی پر اکتفا نہ کرتے ہوئے، انہوں نے بعد از فراغت ریاستی اخراجات پر مفت رہائش کا اہتمام متعلقہ قانون میں یہ لکھ کر کیا کہ سابق وزرائے اعظم کو ملک بھر میں، جی ہاں ملک بھر میں، سرکاری گیسٹ ہاؤسز، ریسٹ ہاؤسز اور سرکٹ ہاؤسز تک "بلاروک ٹوک رسائی” حاصل ہوگی۔
دیگر مراعات جن میں ماہانہ چار سو لیٹر ایندھن، ایک ڈرائیور، اور ماہانہ پچاس ہزار روپے کرایہ مکان شامل ہیں جوں کی توں برقرار رہیں۔ اور یہ تمام بطور ایم ایل اے ملنے والی تنخواہ یا پنشن کے علاوہ ہیں۔
یاد رہے کہ انوارالحق صاحب کے پیشرو تمام سابق وزرائے اعظم اپنی مدت کے اختتام پر نئی نویلی اٹھارہ سو سی سی کاریں لے چکے تھے لیکن چونکہ خود وہ ایک پانچ دروازوں والی جیب لے جانے کے خواہشمند تھے اس لئے انہوں نے اس مقصد کی خاطر قانون ہی بدل دیا۔ یہ الگ بات کہ کئی مواقع پرانہوں نے اپنے مخصوص انداز میں اشارتاً کنایاً اس تبدیلی کا بار اپنے چند پیشرو وزرائے اعظم، بالخصوص راجہ فاروق حیدر صاحب، پر ہی ڈالنے کی کوشش کی۔
انہی دنوں سنٹرل بار ایسوسی ایشن مظفرآباد کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کسی سابق وزیراعظم کا نام لئے بغیر کہا کہ “چند لوگ میرے پاس اس حوالے سے ایک درخواست لائے تھے اور میں نے ان کو کہا ہے کہ حکومت نے مختلف محکموں سے دو ہزار دو سے دو ہزار پانچ ماڈل کی پنج دروازہ گاڑیاں دستبردار کی ہیں جو ٹرانسپورٹ پول میں کھڑی ہیں، اگر وہ اپنی کاروں کا ان کے ساتھ تبادلہ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔” اگلے ہی لمحے انہوں نے کہا شاید ہی کوئی بھی نئی گاڑیوں کا پرانی گاڑیوں سے تبادلہ کرے۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے اُس وقت ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں یہ نشاندہی کی تھی کہ ترمیم شدہ قانون میں یہ نہیں لکھا گیا کہ تین ہزار سی سی گاڑی دو ہزار دو یا دو ہزار پانچ ماڈل کی ہوگی، وہاں صرف انجن کی بڑھائی گئی استعداد کا ذکر ہے اور اس قانون کے تحت، کوئی بھی وزیراعظم اگر چاہے تو اپنے لئے اس استعداد کی نئی گاڑی بھی خرید کر ساتھ لے جاسکتا ہے۔ اور جیسا کہ توقع تھی جب بات خود انوارالحق صاحب کی آئی تو انہوں نے ٹرانسپورٹ پول میں پڑی دو ہزار دو یا دو ہزار پانچ ماڈل کی کوئی تین ہزار سی سی گاڑی نہیں لی؛ بلکہ وہ ایک نئی فارچونر اپنے ساتھ لے گئے — وہی جو انہوں نے عہدہ سنبھالتے ہی اپنے اہل خانہ کے استعمال کے لئے دیگر سرکاری گاڑیوں کے علاوہ مختص کر دی تھی۔
گزشتہ برس ہماری پہلی رسمی ملاقات میں — جس دوران اُس وقت اور اب کے وزیر ملک ظفراقبال بھی موجود تھے — میں نے سابق وزیراعظم سے پوچھا کہ انہوں نے مراعات بڑھائیں کیوں، ختم کیوں نہیں کیں؟ اس پر انہوں نے جواز دیا کہ "کئی سابق وزرائے اعظم نے قانونی استحقاق کے بغیر درجن درجن بھر نچلے درجے کے ملازمین، بشمول پولیس اہلکار اپنے گھروں میں رکھے ہوئے تھے، اور میں نے بس اس عمل کو “ریگولرائز” کیا، اور صرف ایک چوتھائی تعداد کی قانوناً اجازت دے کر باقی ملازم واپس منگوا لئے۔”
اس "اعلیٰ” جواز پر مجھ سے رہا نہ گیا، اور میں نے کہہ دیا جنابِ وزیراعظم یہ تو ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی کو “اٹھارہ کے بجائے چار کے ساتھ بدکاری کی اجازت دے دیں” ۔ انہوں نے میرے اس تلخ تبصرے پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
سابق وزیراعظم اکثر کہتے تھے کہ وہ تنخواہ لیتے ہیں نہ پینشن لیں گے۔ امسال جون میں، ایک اور ملاقات میں، میں نے اچانک ان سے پوچھا کہ کیا وہ سابق وزیراعظم کی مراعات سے استفادہ کریں گے یا نہیں؟ وہ اس سوال کی توقع نہیں کررہے تھے، تھوڑے توقف کے بعدسرگوشی کے انداز میں بس یہ بولے کہ “کچھ وقت کے لیے۔”
دیکھتے ہیں ان کا یہ “کچھ وقت” کب ختم ہوتا ہے۔
تازہ خبر یہ ہے کہ منصب سے فراغت کے محض ایک ہفتے بعد ہی پروٹوکول سے "بیزار” سابق وزیراعظم نے حکومت سے اضافی سیکیورٹی کا مطالبہ کیا، مبینہ طور پر یہ موقف اپناتے ہوئے کہ اُن کی جان کو بھارت سے خطرہ” ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ مطالبہ منظور بھی کر لیا گیا ہے اور انہیں سپیشل پولیس یونٹ سے چار کمانڈوز فراہم کردیے گئے ہیں۔
مکرر عرض ہے کہ جو لوگ ابھی بھی انوار الحق صاحب کو میرٹ اور کفایت شعاری کا منارہ سمجھتے ہیں، انہیں اپنی رائے پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔
یہی وہ صاحب ہیں جنہوں نے 2010 میں اسپیکر کے طور پر پولیس اسکواڈ کے ساتھ سفر کی عیاشی متعارف کروائی — ایک ایسا خرچ جو پہلے کبھی آزادکشمیر اسمبلی برداشت نہیں کرتی تھی۔ اسی دورانیے میں اپنے ایک قریبی عزیز کی گریڈ 21 میں بطور سیکریٹری اسمبلی براہ راست بھرتی بھی ان کی میرٹ پسندی کی ایسی مثال ہے جسے اب تک کوئی مات نہیں دے سکا۔ جب وہ 2021 میں دوبارہ اسپیکر بنے، تو فوراً کشمیر ہاؤس میں سپیکر کا “کیمپ آفس” کھولا۔ بطور وزیراعظم، پی ایم بلاک کے علاوہ، انہوں نے کشمیر ہاؤس کے ایک نوتعمیر شدہ عمارت کی پوری زیریں منزل اپنے زیر استعمال رکھی — اور پچھلے اڑھائی برسوں میں زیادہ وقت وہیں گزارا باوجود اس کے کہ ان کے اس عمل پر کچھ لوگ مسلسل تنقید بھی کرتے رہے۔
گو خوف اور دباؤ کے ماحول میں کوئی سرکاری اہلکار وہ حقائق سامنے نہ لا سکا جو سابق وزیراعظم کے بلند و بانگ دعووں کا پردہ چاک کرتے لیکن حقائق کبھی نہ کبھی ابھر کر سامنے آ ہی جاتے ہیں، چاہے لفاظی کی کتنی ہی تہیں ان پر چڑھا لی جائیں۔
شاید کسی دن، جب انوارالحق صاحب کے منصوبہ بند ٹی وی انٹرویوز میں پیشگی طے شدہ سوالوں کے جواب میں کیے گئے دعووں کا دھواں چھٹے گا، تو کوئی نہ کوئی انہیں ان کی “سادگی” کے اس افسانے پر ضرور جوابدہ ٹھہرائے گا۔
Share this content:


