مظفرآباد/ کاشگل نیوز
پاکستان کے زیر انتظام مقبوضہ جموں کشمیر میں صحافیوں کی خفیہ پروفائلنگ کے لیے سپیشل برانچ کے اہلکاروں کو فراہم کیا گیا مبینہ سوالنامہ دو روز سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔
محکمہ پولیس کے ترجمان نے اس طرح کا کوئی بھی ریکارڈ جمع کرنے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اس سوالنامے کو جعلی قرار دیا ہے۔ محض چند ایک صحافیوں نے ذاتی طور پر اس سوالنامے کو پبلک کیا، اور اس پر سوال اٹھائے۔ تاہم مجموعی طور پر صحافتی تنظیمیں اور تمام پریس کلب اس معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
مختلف شہریوں اور یہاں تک کہ صحافیوں کو بھی یہ معلوم ہے کہ سپیشل برانچ کے اہلکار گزشتہ تقریباً ایک ماہ سے زائد عرصے سے یہ ریکارڈ جمع کرنے میں مصروف ہیں۔ اس دوران جن شہریوں سے صحافیوں کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں، ان میں سے بھی کچھ نے تفصیلات بتائیں، جبکہ کچھ دیگر صحافیوں کو بھی مختلف شہریوں نے اس بارے میں مطلع کیا کہ ان کی ذاتی معلومات جمع کی جا رہی ہیں۔
یہ بھی واضح رہے کہ یہ سوالنامہ بھی پولیس ذرائع سے ہی کچھ صحافیوں نے حاصل کر کے سوشل میڈیا کی زینت بنایا ہے۔ یوں یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ تردید بے شک کی جاتی رہے، ڈیٹا بہرحال جمع کیا جا رہا ہے۔
سوالنامہ کیا ہے؟
’خفیہ رپورٹ بابت صحافی حضرات‘ کے عنوان سے سپیشل برانچ اہلکاروں کو دیے گئے اس مبینہ سوالنامے میں ذاتی کوائف یعنی نام، ولدیت، ذات، سکونت، عارضی پتہ، تعلیم، پیشہ وارانہ تعلیم یا مہارت؛ سابقہ خاندانی پسند منظر، یعنی باپ دادا تک کی داستان؛موجودہ تعداد افراد خانہ، ازدواج بچے وغیرہ، اولاد کہاں زیر تعلیم ہے، سکول،کالج، یونیورسٹی اور اکیڈمی آنے جانے کے ذرائع؛رہن سہن کا طرز؛ مکان، گاڑیاں، جائیداد وغیرہ؛ صحافت کے علاوہ ذریعہ معاش؛ پیشہ وارانہ وابستگی کی تفصیلات مانگی گئی ہیں۔
سب سے دلچسپ معلومات یہ طلب کی گئی ہیں کہ صحافی کا کردار کیسا ہے، اس کی کمزوریاں کیا کیا ہیں، عام شہرت کیسی ہے، بلیک میلنگ کرتا ہے یا نہیں، بطور صحافی رجسٹرڈ ہے یا غیر رجسٹرڈ، کن کن لوگوں سے روابط ہیں، کن سرکاری دفاتر یا کس خفیہ ادارے سے روابط ہیں، کیا کسی کے لیے کام کرتا ہے یا آزاد صحافت کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مذہبی، مسلکی اور سیاسی وابستگی کی تفصیل بھی طلب کی گئی ہے۔
کیا یہ عمل انسانی حقوق کے معیار کے مطابق ہے؟
درحقیقت یہ انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یونیورسل ڈکلریشن آف ہیومن رائٹس اوربین الاقوامی آزادی اظہار رائے کی گائیڈ لائنز کے مطابق صحافیوں کے اہل خانہ کی تفصیلات، بیوی بچوں کی تعلیم، آمدن، روزگار؛ ان کے خاندان کے سیاسی یا مذہبی رجحانات؛ صحافیوں کے دوستوں، تعلقات، رابطوں کی فہرست؛ سرکاری اداروں کے ساتھ تعلقات کی تفصیل؛، غیر متعلقہ آمدن کے ذرائع؛ نجی زندگی کی تمام تفصیلات،بشمول سفر، پراپرٹی، ازدواجی تعلقات وغیرہ سے متعلق معلومات جمع کرنا غیر قانونی، غیر اخلاقی اور آزادی صحافت کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ یہ عمل نگرانی کے زمرے میں آتا ہے۔
بین الاقوامی طور پر مسلمہ انسانی حقوق کے مطابق یہ عمل کسی بھی شہری کے اظہار رائے کی آزادی کے حق اور پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات صحافی کو خوفزدہ کرنے کا باعث بنتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ آزاد انہ رپورٹنگ نہیں کر سکتا۔ اسی طرح یہ اقدامات نجی زندگی میں غیر ضروری اور غیر قانونی مداخلت قرار دیے جاتے ہیں۔
پاکستان اور جموں کشمیر میں اس متعلق آئینی و قانونی تحفظ
پاکستان اور اس کے زیر انتظام جموں کشمیر میں بھی ریاست نے ہر شہری کو محض تحریر کی حد تک ہی سہی، لیکن یہ تمام حقوق دے رکھے ہیں، جن کی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی خود ریاست ہی کی جانب سے کی جا رہی ہے۔ ماضی میں سیاسی نظریات رکھنے کی بنیاد پر پروفائلنگ کرنے کے سرکلرز منظر عام پر آتے رہے ہیں۔ اس بار صحافیوں کی پروفائلنگ کا عمل سامنے آیا ہے۔
تاہم آئین پاکستان اورپاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں نافذ عبوری آئین، ایکٹ1974کے مطابق بھی یہ عمل پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی ہے،اور آزادی صحافت کی بھی خلاف ورزی ہے۔ مختلف عدالتوں نے بھی اس بارے میں متعدد فیصلے دے رکھے ہیں۔ جن کے مطابق ریاست کسی شہری کی نجی زندگی میں بلاجواز مداخلت نہیں کر سکتی۔ کوئی بھی ادارہ اس درجے کی معلومات جمع کرنے کا کوئی قانونی اختیار نہیں رکھتا، جب تک کہ اس کا قومی سلامتی، دہشت گردی وغیرہ کے حوالے سے کوئی جواز نہ ہو، لیکن ایسی صورت میں بھی ایک کمیونٹی، ایک پیشے، یا ایک نظریے سے منسلک تمام لوگوں کی پروفائلنگ نہیں کی جا سکتی۔
ریاست یا کوئی بھی ادارہ کسی بھی شہری سے صرف وہ معلومات لے سکتا ہے، جو اس کی کارکردگی یا قانون نافذ کرنے کے لیے ضروری ہو۔ تاہم کوئی بھی معلومات کسی شہری کی اجازت یا اسے مطلع کیے بغیر لینا غیر قانونی اور غیر آئینی ہے، اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی بھی ہے۔ خفیہ فارم کے ذریعے کوائف جمع کرنا ایک غیر قانونی عمل ہے، جسے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جانا چاہیے۔
صحافتی تنظیموں کی خاموشی
تین روز سے یہ خفیہ کوائف کا سوالنامہ سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔ کچھ صحافیوں کو اس بارے میں پہلے سے علم بھی ہے۔ تاہم اس سب کے باوجود صحافتی تنظیموں اور پریس کلبوں کے ذمہ داروں کی جانب سے ابھی تک اس بارے میں کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ یہ عمل ظاہر کررہا ہے کہ یا تو صحافتی تنظیموں کی قیادتیں اس معاملے کی حساسیت اور بنیادی انسانی حقوق سے آشنا ہی نہیں ہیں، یا پھر وہ صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو چکے ہیں، یا پھر انہوں نے ریاست کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا غیر اعلانیہ فیصلہ کر لیا ہے۔
کیا پولیس تردید کافی ہے؟
ترجمان پولیس کی جانب سے جس طرز پر اس سوالنامے کے سامنے آنے پر تردید اور لاتعلقی کا اظہار کیا ہے، وہ یہ ظاہر کررہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اس معاملے کو انتہائی غیر سنجیدہ لے رہے ہیں۔ اگر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ ڈیٹا اکٹھا نہیں کر رہے تو پھر یہ خفیہ ڈیٹا اکٹھا کرنے کا سوالنامہ کس نے تیار کیا؟ کیسے سوشل میڈیا تک پہنچا اور بالخصوص سپیشل برانچ کے اہلکار اس سوالنامے پر صحافیوں سے متعلق معلومات کس کے لیے جمع کر رہے ہیں؟ان تمام سوالوں کے جواب پولیس کو ہی تلاش کرنے چاہئیں۔
اگر پولیس کے ترجمان اور ذمے داران اس معاملے کی حساسیت اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے تو وہ پریس ریلیز میں یہ بھی کہتے کہ اس کی تحقیق کی جائے گی اور تمام تفصیلات صحافیوں کے سامنے رکھی جائیں گی۔یہ بھی وضاحت کی جاتی کہ یہ عمل غیر قانونی ہے اور پولیس قانون اور آئین کے تحت کام کرتی ہے۔تاہم ایسا نہیں کیا گیا۔
لہٰذا پروفائلنگ کرنے کے احکامات دینے والے ذمے داروں کو فوری سامنے لایا جائے۔ سرکاری سطح پر جس نے بھی یہ غیر آئینی اور غیر قانونی پالیسی بنائی ہے، اس کے بارے میں لوگوں کو بتایا جائے اور یہ بھی بتایا جائے کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ جو ریکارڈ اکٹھا کیا گیا ہے اسے فوری طور پر ضائع کیا جائے۔ شہریوں کے بنیادی حقوق کو متاثر کرنے اور ان کی نجی زندگیوں میں جانکنے، ان کی نگرانی کرنے جیسے عمل کو فوری ترک کیا جائے۔ آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کے آئینی حقوق کی پاسداری کی جائے۔
آخر میں صحافتی تنظیموں کے ذمہ داران بھی کچھ غیرت کر کے اپنے پیشے اور اس عہدے سے کچھ انصاف کرنے کی کوشش کریں، جس کے نام پر مال بنانے میں مصروف ہیں، تعلقات بنانے میں مصروف ہیں، اور سب سے بڑھ کر حکومتیں بنانے اور گرانے کے دعوے کرنے میں مصروف ہیں۔
Share this content:


