جموں و کشمیر: سائبر کرائم کیس کا دو روزہ معجزاتی تفتیش و اختتام سے اہل ِ وطن حیران

راولاکوٹ / کاشگل نیوز

پاکستان کے زیر انتظام مقبوضہ جموں و کشمیر میں سائبر کرائم کیسز کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ محض دو روز میں ایسا ریکارڈ قائم ہوا ہے جس نے قانونی ماہرین، عوام اور صحافتی حلقوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔

اکتیس اگست کو پیش آنے والے ایک وقوعے کی نسبت یکم ستمبر کو درج ہونے والی ابتدائی اطلاعی رپورٹ (ایف آئی آر) کے بعد تفتیش اور عدالتی کارروائی کی رفتار نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق تسکین یوسف نامی شہری نے ن لیگ کے اہم رہنما یاسر منشاء پر کچھ الزامات عائد کیے تھے۔ یکم ستمبر کو اس شکایت پر باقاعدہ ایف آئی آر درج ہوئی۔ ’معجزہ‘ اس وقت سامنے آیا جب ایف آئی آر کے صرف دو دن بعد ہی پولیس نے نہ صرف مرکزی ملزم تسکین یوسف کو گرفتار کرلیا بلکہ فوری طور پر تفتیش مکمل کرتے ہوئے مزید تین سے چار نامزد افراد کو بھی کیس میں ملوث قرار دے دیا۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ پولیس نے دیگر نامزد ملزمان کی گرفتاری کے بغیر ہی ان کے خلاف تفتیش مکمل کرلی اور اس برق رفتار کارروائی کے بعد محض چند گھنٹوں میں چالان عدالت میں جمع کرا دیا۔ عدالت نے بھی غیر معمولی تیزی دکھاتے ہوئے ان ملزمان کو اشتہاری قرار دیا اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ 204 کے تحت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔

ماہرین قانون کے مطابق سائبر کرائم کے کیسز میں اس نوعیت کی تیزی نہ صرف غیرمعمولی بلکہ ناقابلِ یقین بھی ہے۔ عمومی طور پر ایسے مقدمات میں ایف آئی آر سے چالان تک ہفتے، مہینے یا بعض اوقات سال لگ جاتے ہیں، لیکن یہاں دو روز میں ہونے والی کارروائیاں کسی ’ریکارڈ‘ سے کم نہیں۔

عوامی و صحافتی حلقوں نے اس غیر روایتی سرعتِ عمل پر طنزیہ تبصرے کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’جب سائل، پولیس اور انصاف کا محکمہ ایک پیج پر ہوں تو انصاف میں لمحوں کی بھی تاخیر نہیں کی جاتی۔‘‘ بعض شہریوں نے یہ بھی تجویز کیا ہے کہ ایف آئی آر سے وارنٹ تک کے اس دو روزہ سفر کا اندراج گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں کروایا جانا چاہیے۔

اس کیس میں غیر معمولی رفتار نے جہاں قانونی شفافیت پر سوالات اٹھا دیے ہیں، وہیں یہ مثال مستقبل میں تحقیقاتی معیار اور ادارہ جاتی غیر جانبداری کے حوالے سے بھی نئی بحث چھیڑتی دکھائی دیتی ہے۔

Share this content: