کاشگل نیوز
یکم دسمبر کو جب دنیا بھر میں ایچ آئی وی کا عالمی دن آگاہی اور احتیاط کے پیغام کے ساتھ منایا جا رہا ہے، وہیں پاکستان کے زیرِ انتظام جموں وکشمیر میں اس وائرس کے بڑھتے کیسز ایک تشویشناک صورتحال کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
صحت حکام کے مطابق خطے میں ایچ آئی وی انفیکشن کی شرح گزشتہ چند برسوں کے دوران غیر معمولی انداز میں بڑھی ہے، جسے ماہرین صحت "ایک ابھرتا ہوا صحت عامہ کا بحران” قرار دے رہے ہیں۔
اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟
آزاد کشمیر کے محکمہ صحت کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں 500 سے زائد نئے کیسز سامنے آئے۔
اگست 2024 تک:
382 کیسز کی سرکاری طور پر تصدیق
378 فعال مریض رجسٹرڈ
اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ وائرس کے پھیلاؤ میں گزشتہ برسوں کی نسبت نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
ایمز اسپتال مظفرآباد کے مطابق:
2024 میں صرف 10 کیسز رپورٹ ہوئے۔
2025 میں یہ تعداد بڑھ کر 65 ہو گئی۔
ایک سال میں 550 فیصد اضافہ محکمہ صحت کے لیے ایک ٹھوس وارننگ ہے کہ وائرس کی روک تھام کے نظام میں سنجیدہ خامیاں موجود ہیں۔
بڑھتے کیسز کی وجوہات ماہرین کیا کہتے ہیں؟
ماہرین صحت ان وجوہات کو ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کا بنیادی محرک قرار دیتے ہیں:
غیر محفوظ سرنجوں کا استعمال۔
دیہی علاقوں میں آج بھی بار بار استعمال شدہ سرنجوں کا چلن موجود ہے، جو وائرس کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ بتائی جاتی ہے۔
ٹیسٹنگ کا کم رجحان
سماجی بدنامی کے خوف سے بہت سے لوگ ٹیسٹ سے گریز کرتے ہیں نتیجتاً وائرس خاموشی سے دوسروں تک منتقل ہوتا رہتا ہے۔
سماجی بدنامی
ایچ آئی وی سے جڑی غلط فہمیوں کے باعث لوگ تشخیص اور علاج کے لیے سامنے آنے سے گھبراتے ہیں۔
آگاہی کا فقدان
خاص طور پر دور دراز علاقوں میں وائرس سے متعلق بنیادی معلومات بھی محدود ہیں۔
کون سب سے زیادہ متاثر؟
صحت حکام کے مطابق متاثرین میں بڑی تعداد نوجوانوں اور بیرون ملک سے واپس آنے والے مزدور طبقات کی ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کیسز میں خاندانوں تک وائرس منتقل ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
ماہرین کی رائے “وقت کم ہے، اقدامات فوری چاہئیں”
ڈاکٹرز اور پبلک ہیلتھ ماہرین کے مطابق ایچ آئی وی کے پھیلاؤ میں کمی کے لیے درج ذیل اقدامات ناگزیر ہیں:
آسان اور مسلسل ٹیسٹنگ کی سہولت
بروقت اور معیاری علاج
غیر محفوظ سرنجوں کے خلاف سخت کارروائی
اسکولوں، کالجوں اور کمیونیٹیز میں آگاہی مہمات
عوام کے لیے پیغام
“خوف نہیں، شعور ضروری”
صحت ماہرین کا کہنا ہے کہ ایچ آئی وی اگرچہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا، لیکن مناسب علاج سے وائرس کو Undetectable سطح تک لایا جا سکتا ہے، جس کے بعد مریض دوسروں کو وائرس منتقل نہیں کرتے۔
ایچ آئی وی ہاتھ ملانے، ساتھ بیٹھنے یا ایک ساتھ کھانا کھانے سے نہیں پھیلتا۔
بروقت علاج مریض کو عام زندگی گزارنے کے قابل بناتا ہے۔
حکومت کے لیے لمحۂ فکریہ
ماہرین تجویز دیتے ہیں کہ پاکستان زیر انتظام کشمیر میں:
ہر ضلع میں ایچ آئی وی ٹیسٹنگ سینٹرز قائم کیے جائیں۔
ڈسپوزیبل سرنجوں کے استعمال پر سخت قانون سازی ہو۔
تعلیمی اداروں اور کمیونٹی لیول پر آگاہی مہمات کو وسعت دی جائے۔
خفیہ ٹیسٹنگ کو عام اور آسان بنایا جائے، تاکہ لوگ بغیر خوف کے اپنا ٹیسٹ کرا سکیں۔
ایچ آئی وی کا عالمی دن دنیا بھر میں شعور اور ذمہ داری کا پیغام دیتا ہے، مگر پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے لیے یہ دن ایک سنجیدہ انتباہ بھی ہے اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو صورتِ حال مزید بگڑ سکتی ہے۔
Share this content:


