اقتدار کی نئی بساط اور سوال کرتی عوام ۔۔۔ خواجہ کبیر احمد

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی حالیہ سیاسی تبدیلیاں ایک مرتبہ پھر اس خطے کے سیاسی ڈھانچے میں موجود کمزوریاں اور تضادات نمایاں کرتی ہیں۔ گزشتہ ڈھائی برس کے دوران مختلف جماعتوں کی مشترکہ حکومت نے کام کیا، جس کے وزیر اعظم انوار الحق تھے۔ اگرچہ وہ باضابطہ طور پر کسی جماعت سے وابستہ نہیں تھےسواۓ ایک فاروڈ بلاک کے، لیکن ان کی کابینہ میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندے شامل تھے، جس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ ایک وسیع تر سیاسی اتفاقِ رائے کی بنیاد پر حکومت چلائی جا رہی ہے۔تاہم یہ اتفاق زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔وہی سیاسی جماعتیں جو ابتدا میں اس حکومت کا حصہ تھیں، بعد ازاں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لے آئیں۔ یہ اقدام اس پسِ منظر میں بھی اہم تھا کہ انوار الحق نے بھاری اکثریت یعنی 48 ووٹ حاصل کرکے اقتدار سنبھالا تھا۔ عدم اعتماد کی کامیابی نے واضح کیا کہ پارلیمانی حمایت محض عددی قوت نہیں ہوتی، بلکہ سیاسی ماحول اور باہمی اعتماد پر بھی منحصر ہوتی ہے۔

عدم اعتماد کی تحریک کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے مشترکہ طور پر فیصل ممتاز راٹھور کو وزیر اعظم منتخب کرایا۔ تکنیکی طور پر یہ انتخاب پیپلز پارٹی کے حصے میں آیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ نئی حکومت کا قیام دونوں جماعتوں کی مشترکہ سیاسی حکمتِ عملی کا نتیجہ تھا۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن کا اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ سیاسی منظرنامے میں مزید پیچیدگی لے آیا، کیونکہ وہی جماعت نئے وزیر اعظم کے انتخاب میں کلیدی کردار ادا کر چکی تھی۔

یہ تمام معاملات کچھ بنیادی سوالات کو جنم دیتے ہیں،
کیا یہ سیاسی فیصلے اصولی اختلافات کا نتیجہ تھے، یا یہ پارلیمانی قوت کے توازن کو برقرار رکھنے کی ایک حکمت عملی تھی؟
کیا حکومتوں کی تشکیل اور خاتمہ جمہوری طریقہ کار کے تحت ہوا، یا جماعتی مفادات نے اس میں زیادہ کردار ادا کیا؟

یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ جمہوریت میں سیاسی اتحاد اور اختلاف دونوں ہی معمول کا حصہ ہوتے ہیں، لیکن بار بار کی پوزیشن تبدیلی عوام میں بے یقینی پیدا کرتی ہے۔ سیاسی عمل کی شفافیت اس وقت متاثر ہوتی ہے جب جماعتیں ایک ہی عمل میں شریک بھی ہوں اور کچھ ہی مدت بعد اس کے مخالف مؤقف اختیار کر لیں۔ ایسی صورت میں ووٹر کیلئے یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کسی بھی قدم کا اصل محرک کیا تھا،نظریاتی اختلاف ذاتی ،مفاد یا سیاسی تقاضا؟

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی سیاست کا حالیہ دور یہ دکھاتا ہے کہ عوام کی سیاسی آگاہی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ووٹر اب نہ صرف واقعات پر نظر رکھتے ہیں بلکہ جماعتوں کے فیصلوں کو پرکھتے بھی ہیں۔ یہی شعور مستقبل کی سیاست میں زیادہ جوابدہی اور شفافیت کا مطالبہ پیدا کرے گا۔

جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی حالیہ عوامی حقوق کی جدوجہد نے عوام کو شعور ،اعتبار اعتماد اور حوصلہ دیا ہے جس میں تمام سیاسی جماعتیں کبھی کامیاب نہیں ہوئیں بلکہ سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے عوام کو علاقوں، برادریوں اور قبیلوں میں تقسیم رکھا مگر اب عوام سوال کرتے ہیں، جواب مانگتے ہیں اور چھمب جوڑیاں سے تاؤ بٹ تک یہی للکار ہے ” آواز دو ہم ایک ہیں”

جمہوریت کا استحکام اس وقت ممکن ہے جب سیاسی جماعتیں اپنے فیصلوں میں مستقل مزاجی، وضاحت اور ادارہ جاتی اصولوں کو ترجیح دیں۔ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی حالیہ سیاسی تبدیلیاں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ جماعتیں اپنے اقدامات کے اثرات کو نہ صرف ایک دوسرے کے تناظر میں بلکہ عوام کے اعتماد کے حوالے سے بھی دیکھیں۔روائتی سیاسی جماعتوں کو اب عوام کا سامنا ہے ،سامنا کرنے اور عوامی سوالات کے جوابات دینے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں یہ فیصلہ آنیوالا وقت کریگا۔

٭٭٭

Share this content: