طبقاتی سوال اور بلوچستان میں جنگی حالات ….. الیاس کشمیری

 

انقلابی جہد کاروں کا خواہ ان کا تعلق جغرافیائی طور پر کسی بھی خطہ سے ہو طبقاتی سوال کو لیکر سطحی تجزیہ نہیں ہونا چاہیے۔طبقاتی سوال کو اپنی منشاء کے مطابق نہیں بلکہ معروض، مارکسیت اور تاریخی عمل کی بنیاد پر پرکھنا چاہیے۔

بلوچستان میں موجودہ جعفر ایکسپریس ٹرین ہائی جیک واقعہ کو لیکر جو طبقاتی نقطہ نظر پیش کیا جا رہا ہے وہ بلوچ آزادی کی تحریک اور تاریخ کی تحقیق سے مبرا ہو کر خالی خولی طبقاتی الفاظ کا غلاف لپیٹا جا رہا ہے جیسے ملت اسلامیہ کا غلاف لپیٹا جاتا ہے ۔

طبقاتی الفاظ سے لگاؤ ہونا علیحدہ لیکن درست طبقاتی نقطہ نظر کے لیے تحریک کے جوھر، حالات اور عمومیت کا گہرا مطالعہ ہونا لازمی ہے ۔

بلوچوں کی جدوجہد بہت طویل ہے ہم اس میں نہیں جاتے لیکن ماضی قریب میں بلوچ تحریک کے ایک بہت بنیادی اور اہم مسئلے پر جس مسئلے کا شکار پوری بلوچ قوم کا محنت کش طبقہ شکار ہے(جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشیں) سر سری بات ضروری ہے تا کہ ہم اس کے تناظر میں بلوچوں کے قومی سوال اور ہر دو اطراف طبقاتی پوزیشنوں کا درست تجزیہ کر سکیں ۔

جبری گمشدگیوں کے سنگین مسئلہ کو لیکر تمام تر انصاف دینے والے اداروں کے دروازے کھٹکھٹانے اور انصاف نہ ملنے کے بعد بلوچ خواتین ہزاروں کی تعداد میں پورا پاکستان گھوم کر شہر اقتدار اسلام آباد میں آ بیٹھیں اور ایک ہی مطالبہ تھا کہ مسنگ پرسنز کو بازیاب کرو ، مسنگ پرسنز نہیں بلکہ جبری لاپتہ عوام کو جبری لاپتہ محنت کش طبقہ کے افراد کو عدالتوں میں پیش کرو ان پر مقدمات چلائو لیکن انھیں ماورائے عدالت قتل کر کے مسخ شدہ لاشیں مت پھینکو اور مزید جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کرو ، لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی بلکہ پوری دنیا کے سامنے ان کی تذلیل کی گئی اور انھیں واپس لوٹنے پر مجبور کیا گیا اور جب محنت کش طبقے کی یہ ہزاروں خواتین واپس بلوچستان میں داخل ہوئیں تو یہ قافلہ لاکھوں کا قافلہ بن گیا اور لاکھوں بلوچ محنت کشوں نے پر امن جلسے منعقد کیے کہ ہمارے محنت کشوں کو بازیاب کرو ۔

بلوچستان سے اسلام آباد اور اسلام آباد سے واپس بلوچستان تک کے سفر میں لاکھوں بلوچ محنت کش منظم ہوئے ،اس سے انکار ممکن نہیں ہے اور یہ داخلی طور پر قومی سوال پر طبقاتی جڑت کی بہت بڑا پیغام تھا، اس کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخواہ اور پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر کے عام لوگوں نے پہلی دفعہ بہت بڑے پیمانے پر بلوچوں کی تحریک کیساتھ اظہار یکجہتی کی، یہ خارجی سطح پر طبقاتی جڑت کی ابتدائی بنیادیں ہیں۔

اس سارے عمل میں بلوچ سردار ریاست کے ساتھ واضح طور پر کھڑے نظر آئے ، اور پختون اور جموں کشمیر کے عوام جہاں تحریک کے ساتھی یکجہتی کر رہے تھے۔ وہیں پر وہاں کا حکمران طبقہ پاکستانی حکمران طبقے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑا تھا اور کھڑا ہے، جو لوگ آج بھی یہ کہتے ہیں کہ بلوچ قومی تحریک کے پیچھے سردار کھڑے ہیں یا اس سے سردار فائدہ اٹھا لیں گے وہ آج سے تین دہائیاں قبل کی بلوچ تحریک کو دیکھ رہے ہیں۔

بلوچ تحریک وہ مراحلہ عبور کر چکی ہے، سب سے مشکل ترین مرحلہ اپنی تحریک کو بلوچ سرداریت سے محفوظ کرنے کا مراحلہ اس کے لیے انھیں بہت قربانیوں کیساتھ ساتھ ٹھوس اور مربوط حکمت عملی سے گزرنا پڑا جس میں وہ مشرف دور کے آخری وقتوں میں کامیابی حاصل کرنا شروع ہوئے اور بتدریج اپنی تحریک سے سرداریت کے اثرورسوخ کو نکال پھینکا۔

اسی مرحلے کے بعد ہی تو اگلے مرحلے میں بلوچ اپنی مسلح تحریک کی بنیاد پر امن سیاسی جدوجہد کی تحریک بنانے میں کامیاب ہوئے جو موجودہ وقت کی سب سے بڑی اور منظم تحریک ہے۔ جس کا ایک پہلو اسلام آباد میں دنیا نے دیکھا ۔ اور اس پر امن سیاسی تحریک کو محنت کش طبقے کی خواتین لیڈ کر رہی ہیں ۔

اب تحریک جس مراحلے میں داخل ہو چکی ہے وہ عوامی مسلح جدوجہد اور پُرامن سیاسی جدوجہد کا مربوط ملاپ ہے، جس کی بنیاد پر بلوچ تحریک میں پر امن سیاسی جدوجہد اور عوامی مسلح جدوجہد کے وحدت کی بنیادیں پڑھ گئیں ہیں۔ مارکسی نقطہ نظر سے ہم اسے علم و عمل کی وحدت کی بنیاد پر پرکھ سکتے ہیں کیونکہ بلوچ بندوق کی رہنما کتاب ہے۔ یہ بلوچ تحریک کے حتمی مراحل میں داخل ہونے کا ابتدائی عمل ہے۔یہی ماضی قریب ہمیں رہنمائی کرتا ہے۔

موجودہ جعفر ایکسپریس واقعہ کو لیکر درست طبقاتی تجزیہ کرنے میں چونکہ جس دیرینہ مسئلے کا ہم نے اوپر ذکر کیا جبری گمشدگیوں میں دن بدن اضافہ حالات کو یہاں تک لے آیا کہ اس بہری ریاست کے کسی جاندار دھماکے سے کان کھولے جاہیں ، اس سارے دورانیے میں بلوچ سرمچار بار بار یہ اعلان کرتے رہے کہ ریاستی اداروں بالخصوص دفاعی اداروں میں ملازمت کرنے والے ہماری سر زمین پر آ کر ہمارے عام عوام کا ،عام لوگوں کا قتل عام کرنے میں استعمال نہ ہوں اگر ایسا کریں گے تو بلوچ عوام آپ کو کرائے کے قاتل سمجھے گی ، اور بلوچ عوام یا بلوچ محنت کشوں کا قتل ہم برداشت نہیں کریں گے کیونکہ ہماری سرزمین پر ہمارے لوگوں کا قتل عام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سرزمین پر آ کر آپ دہشتگردی کرتے ہو، جنگی حالات میں یہی اپیلیں طبقاتی جڑت کی عکاس ہوتی ہیں، انھی اپیلوں میں بار بار واضح کیا گیا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں ۔ اگر ہمارے لوگوں کو قتل کرنے آؤ گے اور یہ کہو گے کہ ہم ملازم ہیں غریب ہیں اس لیے تنخواہ لیکر آپ کے عام لوگوں کا قتل عام کرنے پر مجبور ہیں تو پھر جواب ملے گا چونکہ ہم نے بلوچ محنت کشوں کا تحفظ کرنا ہے۔

ریاست جس طرح بلوچوں کا قتل عام کر رہی ہے ،جنگی قوانین کی دھجیاں بکھیر رہی ہے اس کے باوجود جب بھی بلوچ سرمچار بار بار اپیلوں کے بعد کوئی ایسا حملہ کرتے ہیں کہ لوگ ان کی قید میں آ جاتے ہیں تو وہ کم عمر بچوں خواتین بوڑھوں اور ایسے لوگوں کو جو کسی ریاستی ادارے کے ملازم نہ ہوں جنگی اصولوں اور قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے انھیں آزاد کر دیتے ہیں کیوں اس لیے کہ کتاب جنگی حالات میں بھی اصولوں کا پابند بناتی ہے۔

یہاں طبقاتی سوال کو یکطرفہ ہو کر نہیں بلکہ مادی و معروضی بنیادوں پر دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بلوچ سرزمین پر جا کر بلوچ محنت کش عوام کو جبری گمشدہ کرنا ،ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنا ،ان کی بستیوں پر حملے اور آپریشن کر کے وہاں کے محنت کش عوام کا قتل عام کرنا، اس سارے عمل میں ریاست اپنے مختلف اداروں کے سپاہیوں کو استعمال کر رہی ہے۔ بلوچ عوام اپنی قومی و طبقاتی نجات کے لیے لڑتے ہیں تو ان کا سامنا خونخوار اور قاتل ریاست کے محافظ ان سپاہیوں سے ہوتا ہے جو ان کی سرزمین پر جا کر ان کا قتل عام کرتے ہیں تو پھر حالت جنگ میں یا وہ خود شکست کھائیں گے یا پھر دشمن کے محافظ سپاہیوں کو شکست دیں گے ۔ یا اپنے اکثریتی عوام کو مرتا دیکھیں گے یا عوام کو قتل کرنے والوں کا قتل کریں گے، ان کے پاس تیسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔

یہاں درست طبقاتی پوزیشن یہ بنتی ہے کہ دوسرے سماج میں جا کر اپنے محنت کشوں کو قتل کرنے سے انکار کر دینا چاہیے اور انکار کرنا ہو گا۔

جعفر ایکسپریس واقعہ سے پہلے بھی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جو اتنے زیادہ شدید نہیں تھے لیکن ان واقعات کو لیکر بلوچ مسلح تنظیموں نے بار بار ان محنت کشوں سے اپیلیں بھی کیں اور خبردار بھی کیا کہ ہماری سرزمین پر محنت کشوں کا قتل عام کرو گے ،غریبوں کو جبری گمشدہ کرو گے تو مارئے جاؤ گے، خونخوار ریاست کے لیے استعمال ہونا چھوڑ دو ورنہ ہم تمھیں کرائے کے قاتل سمجھیں گے۔ لڑائی خواہ کوئی بھی ہو حالت جنگ میں درست طبقاتی پوزیشنیں یہی ہوتی ہیں۔ انقلابی لڑائیوں میں تاریخی طور پر ایسا ہی ہوتا آیا ہے، اپنے عہد کا بالادست طبقہ کبھی خود میدان جنگ میں نہیں اترا محروم طبقات سے ہی اپنی افواج تیار کر کے انقلابی جہد کاروں کے سامنے کھڑی کیں، چائے وہ ویتنام ہو ،وینزویلا ہو ،کیوبا ،بولیو یا روس ہو۔

دوران جنگ ہی لینن نے بھی جرمن محنت کشوں سے اپیل کی تھی ،ہمارے سماج میں آ کر اپنے جیسے انسانوں کا قتل عام مت کرنا اور وہ اپیل محنت کشوں نے سن لی ،مان لی، اگر نہ مانتے وہ سوویت یونین میں داخل ہو جاتے تو کیا سوویت یونین کے انقلابی سرخ فوج ان کیساتھ اس لیے لڑائی سے گریزاں ہوتی کہ یہ محنت کش ہیں؟ طبقاتی فریضہ ہے کہ ان کو انقلاب کچلنے دو ؟ نہیں ہر گز نہیں سرخ فوج انقلاب کے دفاع میں لگی ہوئی تھی اس دفاع میں دوسری طرف سپاہی ضرور مارئے جا رہے تھے اور جرمن بھی آتے تو مارے جاتے۔ ہمیں جنگی حالات میں طبقاتی پہلوؤں کا ہر اطراف سے مادی اور معروضی بنیادوں پر درست تجزیہ کرنا چاہیے۔ یہاں ہم اپنے سماج کی پرامن حالات کی مثال لیتے ہیں ہمارے سماج میں عوام کی کسی بھی پرت سے لوگ اپنے معاشی سوال کو لیکر احتجاج کر رہے ہوں جو احتجاج چند اصلاحات کے لیے ہوتا ہے اگر پولیس لاٹھی چارج کر دے تو ہمارا سامنا پولیس کے عام سپاہیوں سے ہوتا ہے، وہ شل پھینکیں تو ہم شل واپس پھینکتے ہیں ان پر کیونکہ وہ سپاہی ہوتے لیکن اس وقت ریاست کی رٹ کا تحفظ کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم پولیس کے سپاہیوں کے آنے پر احتجاج ختم نہیں کر دیتے کہ ہمارے طبقے کے سپاہی آ گئے ہیں تو طبقاتی فریضہ ہے کہ احتجاج ختم کر دیا جائے ۔

ہم بار بار اپیل کر رہے ہوتے ہیں کہ آپ ہمارے طبقے کے ہو ہماری لڑائی سانجھی ہے لیکن جب وہ لاٹھی چارج کرتے ہیں تو ہم اپنے آپ کو کمزور ثابت نہیں کرتے، مقابلہ کرتے ہیں اپنی طاقت کے مطابق، جہاں جنگی حالات ہوں درجنوں قتل اور درجنوں جبری گمشدگیوں کی روزانہ کی بنیاد پر ہوتی ہوں تو مارکسزم ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ اس جبر و ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہی درست طبقاتی پوزیشن ہے نہ کہ مقتول و محکوم سماج پر طبقاتی غلاف میں لپیٹے الفاظ مسلط کرنا درست طبقاتی پوزیشن ہے۔

بہر کیف بلوچوں کی طرف سے ریاست کو یہ شدید چنوتی ہے کہ اب ہم نجات کے سوال پر منظم تحریک کو آخری مراحلے میں داخل کر چکے ہیں، اب ہمیں جینے کا حق دینا ہو گا ورنہ ہم چھین کر لیں گے۔ اور ریاستی اداروں میں موجود محنت کشوں کو بھی پیغام ہے کہ اب بلوچ عوام کے قتل سے انکار کر دو اگر انکار نہیں کرو گے اور ہمارے اوپر مسلط کی گئی لڑائی کا ایندھن بنو گے تو پھر آپ ہمارے لیے کرائے کے قاتل اور کرائے کے دہشت گرد ہو جو ہماری سر زمین پر محنت کشوں کا اجتماعی قتل کرتے ہو۔ ہم اپنے کثیر تعداد کے محنت کشوں کی حفاظت کے لیے ریاست کے مفادات اور بیانیے پر کھڑے ہو کر لڑنے والے اقلیتی محنت کشوں سے بھی لڑیں گے اس لیے کے وہ سامراجی مقاصد میں استعمال ہو رہے ہیں ۔

باہیں بازو کو یہاں یکطرفہ نہیں بلکہ دونوں اطراف طبقاتی پوزیشنوں کا تجزیہ کرنا ہو گا اور ریاستی ظلم بربریت اور ہولناکیوں کو بے نقاب کرتے ہوئے درست طبقاتی پوزیشن پر کھڑے ہو کر بلوچ عوام کی تحریک کی کھلم کھلا حمایت کرنا ہو گی۔ اور پنجاب، جموں کشمیر، پختونخواہ سندھ کے ان محنت کشوں سے اپیل کرنا ہو گی جو ریاستی اداروں میں ملازم ہیں کہ آپ بلوچوں کی سرزمین پر جا کر بلوچوں یعنی اپنے ہی طبقے کے لوگوں کے قتل عام سے انکار کر دو۔ یہی درست بنیادیں ہیں طبقاتی جڑت کی ،باقی سب لفاظی اور ابہام پیدا کرنے کی کوششیں ہیں جن کا فائدہ حکمران طبقات اور اسٹیبلشمنٹ کو پہنچتا ہے۔

(ہماری رہنمائی کے لیے مزید بحث کی گنجائش موجود ہے، راقم)

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے