ہمیں مزید لاشیں اٹھانے سے انکار کرنا ہو گا، ہم کیوں لاشیں اٹھائیں؟ عوام کو فتح کرنے کی لڑائی میں ہمارے با صلاحیت نوجوانوں کو ایسے قتل کروایا جائے اور ہم بے حس رہیں؟ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
ہمارا کلچر ایسا بالکل نہیں ہے کہ ہم دوسرے سماجوں میں جا کر لوگوں کو قتل کریں، اور خود بھی قتل ہوں، ہمارے پیارے نوجوانوں کو اگر ریاستی سیکورٹی اداروں میں ملازمتیں دی گئی ہیں تو ان کی ڈیوٹی اپنی ہی ریاستی حدود کے اندر ہونا چاہیے، ہماری اپنی ریاست مقبوضہ ہے تو پھر ہم کسی دوسری ریاست کی سالمیت اور تحفظ کے نام پر اس ریاست کے کسی حصے کے عوام کے خلاف آپریشن میں جاہیں یہ سیدھا سیدھا ہمیں ملازمتیں دے کر جنگ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔
ہم مسلسل لاشیں وصول کر رہے ہیں ،کبھی وزیرستان سے تو کبھی بلوچستان سے، حالانکہ وزیرستان اور بلوچستان کے عوام کیساتھ ہماری کوئی لڑائی نہیں ہے۔
ایسا کیوں ہے کہ ہمارے شہریوں کی دنیا کے ہر کونے سے لاشیں آتی ہیں اور پوری دنیا میں ہمارے شہری دوران ملازمت حادثات کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کی روک تھام کے بجائے اب پڑوسی ملک پاکستان سے بھی ہمیں روزانہ لاشیں وصول کرنا پڑتی ہیں۔
سیکورٹی اداروں میں ملازمت کرنے والے ہمارے نوجوانوں کو پاکستان کی ریاست کے عوام کو فتح کرنے کی جنگ کا ایندھن بنایا جا رہا ہے، ہمارے حکمران طبقے کے پاس اس کا کوئی ڈیٹا نہیں ہے کہ چار ہزار مربع میل سے کتنے شہری سیکورٹی اداروں میں ہیں اور ان کی ڈیوٹی کن ایریاز میں ہے، اس ڈیٹا کو پبلک کیا جانا چاہیے تا کہ عوام اس سے اگہی حاصل کر سکیں۔
ہم سے ملازمتوں کے نام پر کرائے کے قاتلوں کا کام لیا جائے یہ ہمیں بالکل منظور نہیں ہے۔ بلوچوں اور پختون کے حقوق غصب کر کے ایک بالادست طبقہ مفادات اٹھا رہا ہے اور اس عوامی استحصال کو تحفظ دینے کے لیے غریب عوام اور ہمارے شہریوں کی زندگیاں غیر محفوط کی جا رہی ہیں۔
ہمارے نوجوان ایک ایسی جنگ میں شہید ہو رہے ہیں جو جنگ ہمارے لیے جائز ہی نہیں ہے کیونکہ کسی دوسرے سماج میں جا کر وہاں کے وسائل پر قبضہ کرنے کی غرض سے وہاں کے عام لوگوں کا قتل عام ایسی جارحیت ہے جو کسی صورت جائز نہیں ہے۔
جموں کشمیر کے شہری ہر گز یہ نہیں چاہتے کے کسی خطہ کے عوام کو وہاں کے وسائل سے محروم رکھنے کے لیے ان پر جنگ مسلط کرو، کیونکہ دوسرے سماج میں جا کر دہشت پھیلانے، جبری گمشدگیاں کرنا، مسخ شدہ لاشیں پھینکنا یہ دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے اور جموں کشمیر کے لوگ دہشت پسند نہیں ہیں۔
دہشت گرد ہونا تو دور کی بات ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملازمت کے عوض ہمارے نوجوانوں سے ان کے مزاج، ان کی ثقافتی اور اخلاقی قدروں سمیت ان کے ضمیر مخالف کام لیا جاتا ہے، ایسے میں غور طلب ہے کہ روزگار ہمیں کس لیے چاہیے ہوتا ہے؟ کیچن چلانے اور بچوں کی تعلیم اور صحت کے لیے تو کیا ہمیں اپنا کیچن چلانے کے لیے ایسی ملازمت کرنی چاہیے جو ہمیں مجبور کر دے کہ دوسرے کے کیچن کو مشکلات کا شکار کر دو، جو ہمیں مجبور کرے کہ اپنے جیسے دوسرے انسان کے بچوں کی فیس اور تعلیم کا بندوبست کرنے والے کو گولیوں کا نشانہ بنا دو ایسا نہیں کرو گے تو تمھارے بچے ان سہولتوں سے محروم ہوں گے کیونکہ تم ایک ایسے میدان میں ہو جہاں تمھارے یا سامنے والے کسی ایک کے بچوں نے ان سہولتوں سے محروم ہونا ہے کیونکہ تم میں سے ایک ہی زندہ رہے گا۔ کیا ہمیں اپنی اولادوں کو ایسی ملازمتیں دلانی چاہیے ؟ میرے خیال میں بالکل نہیں اس سے محنت مزدوری بہت بہتر ہے جہاں مشکلات ضرور ہو سکتی ہیں لیکن تنخواہ لیکر یا مرنا ہے یا مارنا ہے جیسا غلیظ اور وحشیانہ ماحول نہیں ہوتا۔
سیکورٹی اداروں میں اپنے بچوں کو بھرتی کروانا بند کر دینا چاہیے جو اس وقت ان اداروں میں ہمارے نوجوان ملازمتوں پر ہیں اگر اپنے ہی عوام ہر مسلط شدہ جنگ کے محاذ پر ان کو بھیجا جاتا ہے تو انھیں مستعفی ہو جانا چاہیے۔ ہمیں جنگ و جدل کے ماحول میں لاشیں گرانے اور لاشیں اٹھانے سے اجتماعی طور پر انکار کر دینا چاہیے، اور حکمرانوں سے روزگار کی مانگ پر منظم ہونا چاہیے۔
ہمیں بحیثیت جموں کشمیر کے شہری غور کرنا چاہیے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشیں پھینکنے، وہاں فوجی سپاہیوں کے قتل ہونے کے حالات کس نے پیدا کیے ہیں؟
ان جنگی حالات سے ہمارا کیا تعلق بنتا ہے؟
ان حالات کو پیدا کر کہ کون کیا مفادات اٹھا رہا ہے؟
ان مفادات سے ہمارا کیا اشتراک ہے؟
ان سوالات کو آنکھیں اور دماغ بند کر کے رد کر دینا اور مارنے مرنے کے اس گھنائونے عمل میں اپنے خوبصورت نوجوانوں کی زندگیاں گنواتے رہنا اور وہاں کے عوام کے اجتماعی قتل پر بھی زباں بندی سے کام لینا اجتماعی غفلت اور آنے والی نسلوں کے خود قاتل ہونے کے مترادف ہے۔
چپ سادھ کر لاشیں نہیں اٹھایں گے غلط اور درست میں تمیز کو قائم رکھتے ہوئے اجتماعی انکار کریں گے ایسی جنگ میں مرنے سے جس جنگ کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں بنتا ہم بالکل ایسی دہشت پسندی اپنے ذمہ نہیں لیں گے جو دوسرے سماجوں اور خطوں کے عوام کی نسل کشی کا باعث بنے اور اس کا ایندھن ہمارئے نوجوان شہری بنیں۔
خون بلوچ عام آدمی کا ہو یا فوج کے عام سپاہی کا اس کا ذمہ دار کوئی ہے اس ذمہ دار کا تعین ہونا چاہیے چونکہ اس سارے کشت و خون کا ذ مہ دار وہ ہے جس نے بلوچ سماج میں ایسے حالات پیدا کیے ہیں۔
٭٭٭