23 مارچ کا دن ان عظیم انقلابیوں اور بہادر شہیدوں کی یاد میں منایا جاتا ہے، جنہوں نے آزادی اور سوشلزم کے پرچم کو سر بلند رکھنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ آج سے تقریباً 94 برس قبل، ظلم و جبر کی تاریک راہوں سے گزر کر سرخ پھریرا لہرانے والے وہ عظیم نوجوان، جن کا رہنما بھگت سنگھ تھا، تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔ راج گرو اور سکھ دیو وہ انقلابی ساتھی تھے، جنہوں نے تختہ دار تک بھگت سنگھ کا ساتھ دیا اور اپنے نظریے کا بھرپور دفاع کیا۔
بھگت سنگھ انقلاب کا وہ سپاہی تھا، جس نے بچپن ہی میں انقلاب کے پُرخطر راستے کو چنا۔ ابتدا میں اس نے اپنی تمام تر امیدیں گاندھی کی تحریکِ عدم تعاون سے وابستہ کر لیں اور اسے آزادی کی تحریک سمجھا، مگر جلیانوالہ باغ میں ہونے والے قتل عام نے اس کی سوچ کو یکسر بدل دیا۔ گاندھی پر اس کا یقین متزلزل ہو گیا اور اس نے خود اپنا راستہ چُنا۔ کالج کے دور میں بھگت سنگھ نے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور نوجوانوں کو برطانوی سامراج کے خلاف، جبر و استحصال کے خلاف منظم کرنے میں مصروف ہو گیا۔
برصغیر میں اُس زمانے میں قومی آزادی کی بحث عروج پر تھی۔ حکمران طبقے کے کاسہ لیس برسوں سے ساتھ رہنے والے ہندوؤں اور مسلمانوں کو الگ الگ قوم ثابت کرنے میں مصروف تھے۔ بھگت سنگھ کا بیانیہ ان سب سے جدا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ قومی آزادی کا راستہ طبقاتی جدوجہد سے ہو کر گزرتا ہے۔ وہ خبردار کر چکا تھا کہ "اگر یہ خطہ مذہب کے نام پر تقسیم ہوا تو نفرت کی اس آگ کو بجھاتے بجھاتے آنے والی نسلوں کی کمر ٹوٹ جائے گی۔”
بھگت سنگھ سمجھتا تھا کہ محض انگریزوں کے جانے سے حقیقی آزادی نہیں ملے گی۔ اس نے واضح الفاظ میں کہا کہ "ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیے جس میں انگریز حکمرانوں کی جگہ مقامی اشرافیہ لے لے۔ ہم ایسی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جو سارے نظام کو ایک انقلابی تبدیلی کے ذریعے بدل کر رکھ دے۔”
شروع میں بھگت سنگھ نے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔ لالا لاجپت رائے کی شہادت کے بعد، بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے اس کا بدلہ لینے کے لیے برطانوی افسر سانڈرز کو گولی مار دی۔ اسمبلی میں بم پھینکے، مگر اس انداز میں کہ کسی انسان کو نقصان نہ پہنچے۔ لیکن وقت کے ساتھ بھگت سنگھ کی حکمت عملی میں تبدیلی آئی۔ وہ سمجھ گیا کہ مسلح جدوجہد صرف اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب وہ عوامی تحریک کے ساتھ جڑی ہو اور عوامی ضروریات کے تابع ہو۔
بھگت سنگھ نے مارکسزم کے سائنسی نظریات کو بنیاد بنا کر ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کو ترجیح دی۔ اس نے اپنی تنظیم کے نام میں "سوشلسٹ” کا اضافہ کیا اور "ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن” (HSRA) کے بینر تلے عوام کو منظم کیا۔ اس کا ماننا تھا کہ "ہمیں لینن کے الفاظ میں پیشہ ور انقلابی چاہییں، ایسے کارکن جو اپنی زندگی کا مقصد انقلاب کے علاوہ کچھ نہ سمجھیں۔ ایسے انقلابی کارکن جتنی زیادہ تعداد میں پارٹی میں منظم ہوں گے، کامیابی کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔”
بھگت سنگھ اپنے نظریات اور بے پناہ بہادری کی وجہ سے برصغیر میں بے حد مقبول تھا۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ برطانوی انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر سر ہوریس ولیم سن نے اس کی پھانسی کے برسوں بعد لکھا کہ "اس کی تصویر ہر شہر اور قصبے میں فروخت ہو رہی تھی اور کچھ وقت کے لیے اس (بھگت سنگھ) کی مقبولیت گاندھی کے مقابلے پر تھی۔”
پٹیالہ یونیورسٹی کے ایک سیمینار میں پروفیسر بلکر سنگھ نے کہا کہ "بھگت سنگھ نے سب کچھ سوشلسٹ انقلاب کے لیے قربان کر دیا۔ اس کی سوچ آج بھی اتنی ہی درست ہے جتنی اس کی زندگی میں تھی اور اس کا مقام لینن اور چے گویرا جیسے انقلابیوں کے برابر ہے۔”
آج بھی بھگت سنگھ کے نظریات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کچھ اسے محض قوم پرست بنا کر پیش کرتے ہیں، کچھ اسے سکھوں کا ہیرو بنانے پر بضد ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ بھگت سنگھ ایک سچا انقلابی تھا۔ وہ سوشلسٹ تھا، اس نے اپنی پوری زندگی سامراجیت، سرمایہ داری اور استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد میں گزاری۔
بھگت سنگھ کے عدالتی قتل کی تقریباً نو دہائیوں بعد آج بھی اِس خطے کے ڈیڑھ ارب عام انسان محرومی اور غربت سے دوچار ہیں۔ اِس نظام کے لبرلزم سے لے کے مذہبی بنیاد پرستی تک نے عام لوگوں کی زندگیوں کو مزید تنگ ہی کیا ہے۔ انقلاب سے کم کوئی چیز ان کے مسائل حل نہیں کر سکتی۔ نوجوانوں کے نام بھگت سنگھ کا یہ پیغام آج بھی بالکل معقول اور درست ہے، "انقلاب کیلئے جذباتیت یا خون خرابے کی بجائے مستقل مزاجی سے کی جانے والی جدوجہد، پیش قدمی اور قربانی چاہیے۔ سب سے پہلے ذاتی تسکین کے خوابوں سے چھٹکارہ پانا ہو گا… مشکلات اور مصائب آپ کو مایوس نہ کریں۔ نہ ہی ناکامی اور غداریوں سے دل برداشتہ ہوا جائے۔ جتنی بھی مشقت کرنی پڑے‘ آپ کے اندر کا انقلابی مرنا نہیں چاہیے۔ ان امتحانات سے گزر کر ہی آپ کامیاب ہو ں گے اور آپ کی فتح ہی انقلاب کا اثاثہ ہو گی۔”
معروف انقلابی دانشور ڈاکٹر لال خان نے لکھا تھا کہ "دنیا کی کوئی طاقت اس نظریے کو شکست نہیں دے سکتی جس کا وقت آ چکا ہو۔” آج سے 94 سال قبل، برصغیر کے ان عظیم مزاحمت کاروں کو تختہ دار پر لٹکا کر حکمرانوں نے سمجھا تھا کہ بھگت سنگھ کا نام مٹ جائے گا، مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ نظریات کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ بھگت سنگھ جسمانی طور پر تو اس دنیا سے رخصت ہو گیا، مگر اس کے خیالات، اس کے خواب، اس کی جدوجہد آج بھی زندہ ہے۔ وہ آج بھی انقلابیوں کے لیے مشعلِ راہ ہے، وہ آج بھی محنت کشوں کی امید ہے، اور وہ اُس دن تک زندہ رہے گا جب تک ظلم، جبر اور استحصال کے خلاف آخری لڑائی لڑی نہیں جاتی۔
٭٭٭