مظفرآباد ( کاشگل نیوز)
پاکستان مسلم لیگ (ن) آزادجموں و کشمیر نے الیکشن کمیشن میں عدم تعیناتیوں کو عبوری آئین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آزادکشمیر کو سرزمین بے آئین بنانے کی کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، وزیراعظم بتائیں کہ چیف الیکشن کمشنر سمیت الیکشن کمیشن میں تعیناتیوں کی راہ میں کیا رکاوٹیں حائل ہیں۔
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے بحیثیت چیئرمین کشمیر کونسل صدر مسلم لیگ ن آزادکشمیر کے مکتوب پر کارروائی کرتے ہوئے آزاد جموں و کشمیر الیکشن کمیشن میں تعیناتیوں میں تاخیر پرآئینی مشاورت کیلئے وفاقی وزیر قانون کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی ہے جس میں چیف سیکرٹری آزادکشمیر اور سیکرٹری کشمیر افیئرز ممبر ہیں، چیئرمین کشمیر کونسل کو یہ اختیار آزادکشمیر کے آئین نے دیا ہے، حکومت پاکستان آزادکشمیر میں گڈ گورننس اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کردار ادا کرنے کی ذمہ دار ہے، پیپلز پارٹی اور قائد حزب اختلاف کی جانب سے وزیراعظم پاکستان کی قائم کردہ کمیٹی پر اعتراض بلاجواز اور ناقابل فہم ہے، ہم نے صرف جاری آئین کی خلاف ورزی پر توجہ مبذول کروائی ہے۔
صدر مسلم لیگ (ن) شاہ غلام قادر اور سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان نے درجنوں مسلم لیگی کارکنوں کے ہمراہ ایم ایل اے ہاسٹل کے کمیٹی روم میں پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آزادکشمیر کا یہ خطہ اور یہاں نافذ پارلیمانی جمہوری نظام اور آئین اسلاف کی طویل جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ ہے، ہمارے بزرگوں نے صبر آزماء جدوجہد کے بعد یہ آئین حاصل کیا تھا، ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے گلگت بلتستان میں ابھی تک آئین نافذ نہیں ہو سکا، ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نظام چلایا جا رہا ہے، سیاسی جماعت اور ممبر اسمبلی ہونے کی حیثیت سے یہ ہماری آئینی، اخلاقی اور سیاسی ذمہ داری ہے کہ جمہوری نظام کے تحفظ اور آئین کی بالادستی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
صدر مسلم لیگ (ن) شاہ غلام قادر نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنے دور حکومت میں راجہ فاروق حیدر خان کی زیر قیادت عبوری آئین میں تیرہویں ترمیم کے ذریعے حکومت آزادکشمیر اور وزیراعظم کے منصب کو بااختیار بنایا، اگرچہ اس سلسلہ میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا، جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں، آزادکشمیر میں نظام آئین کے مطابق چل رہا ہے یا نہیں، یہ دیکھنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کیوں کہ ہم نے اس آئین کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے، عبوری آئین میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ کوئی آئینی عہدہ خالی نہیں رکھا جا سکتا، آئینی عہدوں پر نظام چلانے کیلئے فوری تعیناتیاں آئینی تقاضا ہوتی ہیں مگر بدقسمتی سے آزادکشمیر میں 14 جنوری 2025 سے چیف الیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ کے بعد الیکشن کمیشن غیر فعال ہے، یہ آئینی ادارہ ہے، چیف الیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ سے پہلے سینئر ممبر اور ممبر الیکشن کمیشن ریٹائر ہو گئے تھے، حکومت کا یہ فرض تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ سے پہلے الیکشن کمیشن میں تعیناتیوں کا پراسیس مکمل کرتی، عبوری آئین کے آرٹیکل 50 کی ذیلی دفعہ 5میں الیکشن کمیشن کی تشکیل واضح ہے، وزیراعظم نے قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے ایک پینل چیئرمین کشمیر کونسل کو ارسال کرنا ہوتا ہے، چیئرمین کشمیر کونسل ارسال شدہ پینل میں سے کسی ایک نام پر اتفاق کرتے ہوئے تعیناتی کی منظوری دیتے ہیں اور صدر آزادکشمیر کے ذریعے نوٹیفکیشن کا اجراء ہوتا ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن کے ممبران اور چیف کا حلف ہوتا ہے، الیکشن کمیشن دو ممبران اور ایک چیف الیکشن کمشنر پر مشتمل ہے یوں یہ تین افراد پر مشتمل آئینی ادارہ ہے، اس وقت الیکشن کمیشن غیر فعال ہے، حکومت آزادکشمیر کو ممبر تعینات کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔
شاہ غلام قادر نے کہا کہ وزیراعظم بتائیں کہ انہیں کس کا انتظار ہے، ابھی تک انہوں نے سیاسی جماعتوں اور قائد حزب اختلاف کے ساتھ مشاورت کیوں نہیں کی، صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ سابق وزیراعظم تنویر الیاس کی عدالتی فیصلے کے ذریعے نااہلی کے فوری بعد اس وقت کے سینئر وزیر خواجہ فاروق نے وزیراعظم کا چارج سنبھال لیا تھا جو اس بات کاثبوت ہے کہ آئینی عہدہ کسی صورت خالی نہیں رکھا جا سکتا، اس وقت 26 سے زائد ٹاؤن کمیٹیوں اور دیگر بلدیاتی اداروں کے اراکین کے استعفیٰ الیکشن کمیشن میں زیر التواء ہیں، کیوں کہ الیکشن کمیشن ہی موجود نہیں، آج اگر کسی ممبر اسمبلی کا انتقال ہو جائے تا کوئی نااہل ہو جائے تو پھر کیا ہو گا، ضمنی انتخاب کون کروائے گا، وزیراعظم آزادکشمیر الیکشن کمیشن میں تعیناتیوں کے حوالے سے تاخیر کر کے آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں، وزیراعظم پاکستان کو بحیثیت چیئرمین کشمیر کونسل آزادکشمیر کے عبوری آئین کے تحت آئینی ذمہ داریوں سے متعلق کردار ادا کرنے کی جانب توجہ مبذول کروائی، وفاقی وزیر قانون، چیف سیکرٹری اور سیکرٹری کشمیر آفیئر پر مشتمل کمیٹی قائم کرنا وزیراعظم پاکستان کا اختیار ہے، اس کمیٹی نے صرف طریقہ کار اور تاخیر کا جائزہ لینا ہے۔
شاہ غلام قادر نے مزید کہا کہ موجودہ وزیراعظم کی یہ عادت ہے کہ معمولی معاملے کو بھی انتہا پر لے جاتے ہیں اور جب ناقابل تلافی نقصان ہو جاتا ہے تو پھر فیصلے کرتے ہیں، الیکشن کمیشن میں تعیناتیوں پر اسرار خاموشی سے عیاں ہے کہ آزادکشمیرکے اس خطہ کو بے آئین بنانے کی سازش ہو رہی ہے جسے کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی جو 1973ء کے متفقہ آئین اور آزادکشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 1974ء کے نفاذ کے میں بنیادی کردار کی حامل ہے، آزادکشمیر کے عبوری آئین کی ایک شق پر عملدرآمد پر انہیں اعتراض ہے، آئین پر عملدرآمد کے حوالے سے پیپلزپارٹی کے اعتراض کی بات سمجھ سے بالاتر ہے، پاکستان پیپلزپارٹی کے صدر کو بھی ان کے گھر جا کر گزارش کی تھی کہ آپ بھی اپنا کردار ادا کریں، بظاہر آزادکشمیر میں ایک مخلوط حکومت ہے، جس میں مسلم لیگ (ن) سے ابھی تک کوئی مشاورت نہیں کی گئی، صدر مسلم لیگ (ن) اور فاروق حیدر جو پارلیمانی لیڈر ہیں حکومتی مشاورت سے لاعلم ہیں، وزیراعظم کا دعویٰ ہے کہ یہ ممبران اسمبلی کی حکومت ہے اور یہ ممبران اسمبلی کو ہی حکومت سمجھتے ہیں۔
شاہ غلام قادر نے کہا کہ ہم آزادکشمیر کے عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ آزاد کشمیر کے آئین کے ساتھ کسی قسم کا کھلواڑ برداشت نہیں کریں گے، انہوں نے کہا کہ کیا کہ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کا تعلق ایک ہی جماعت سے ہے، دونوں تحریک انصاف سے منتخب شدہ ہیں، چوہدری انوارالحق نے ابھی تک تحریک انصاف سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کیا، یہ فاروڈ بلاک کا ذکر کرتے ہیں، قائد حزب اختلاف کی مصلحت بھی ناقابل فہم ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ عبوری آئین کے تحت فوری طور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کیلئے تقاضے پورے کیے جائیں، صدر مسلم لیگ (ن) نے کہاکہ 95 فیصد مسلم لیگی کارکنوں نے حکومت سے الگ ہونے کی قرارداد منظور کر رکھی ہے، صرف چار وزراء حکومت کا حصہ ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ مرکزی جماعت کی ہدایت پر حکومت کا حصہ بنے، بہت جلد مرکزی قیادت کی ہدایات پر عملدرآمد کریں گے، وہ وقت بھی بہت قریب ہے۔
صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قرادادوں کے مطابق حکومت پاکستان آزادکشمیرمیں گڈ گورننس اور تعمیر و ترقی سمیت بنیادی سہولیات کی فراہمی کی ذمہ دار ہے، آزادکشمیر کے آئین کے تحت چیئرمین کشمیر کونسل کو اعلیٰ عدلیہ میں ججز اور الیکشن کمیشن میں تعیناتیوں کا اختیار حاصل ہے، الیکشن کمیشن میں تعیناتیوں کے حوالے سے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف اگر جاگ رہے ہیں تو اپنا آئینی کردار فوراً ادا کریں، کوئی رکاوٹ ہے تو بتائیں، سازش ہے تو کون کر رہا ہے، آئین پر عملدرآمد میں تاخیر کے حوالے سے وزیراعظم کے پاس کوئی دلیل موجود نہیں، وزیراعظم پاکستان کو مکتوب اور اب میڈیا کے ذریعے حکومت آزادکشمیر سے آئینی خلاف ورزی کے نشان دہی کر رہے ہیں، اس کے بعد بھی اگر الیکشن کمیشن میں تعیناتیاں نہ ہوئیں تو اپنا آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کریں گے، اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرتے ہیں یا سڑکوں پر نکلتے ہیں فیصلہ مشاورت سے کیا جائے گا۔
سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان نے اس موقع پر عبوری آئین کے آرٹیکل 50 کی جملہ 17 شقوں پر من و عن عملدرآمد کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر چیئرمین کی ریٹائرمنٹ پر سینئر ممبر الیکشن کمیشن موجود ہو تو چیف الیکشن کمیشن کا چارج 6 ماہ کیلئے سینئر ممبر کو دیا جا سکتا ہے، لیکن اس وقت الیکشن کمیشن میں کوئی ممبر موجود نہیں، الیکشن کمیشن غیر فعال ہے، الیکشن کمیشن میں صرف سرکاری ملازم موجود ہیں، آئینی عہدے خالی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے تیرہویں ترمیم کے ذریعے وزیراعظم کے دفتر کو بااختیار بنایا تھا، موجودہ وزیراعظم اختیار کیوں استعمال نہیں کر رہے، 27ممبران ہمارے پاس موجود نہیں کہ انہیں ہٹا سکیں۔
ایک سوال پر فاروق حیدر نے کہا کہ میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کیلئے تیار ہوں لیکن صدر جماعت نے روک رکھا ہے۔
2014 ء میں چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے حوالے سے سوال پر فاروق حیدر نے کہا کہ اس وقت تیرہویں ترمیم نہیں ہوئی تھی یہ 2018میں ہوئی۔
ایک سوال پر صدر مسلم لیگ (ن) شاہ غلام قادر نے کہا کہ آزادکشمیر کو عجوبہ بنا دیا گیا ہے، آزادکشمیر نہ تو مقبوضہ علاقہ ہے اور نہ ہی مفتوعہ علاقہ ہے، یہ خطہ ہمارے بزرگوں نے اپنے زور بازو سے آزاد کروایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم آزاد میڈیا کے ساتھ کھڑے ہیں، اخبارات کے خلاف مقدمات درج کر کے ایک ایسی روایت ڈالی گئی ہے جس کی کسی صورت تائید و حمایت نہیں کی جا سکتی، مسلم لیگ (ن) بحیثیت جماعت اظہار رائے کی آزادی کی حامی ہے، اگر کسی صحافتی ادارے کے خلاف شکایت ہے تو ازالہ کیلئے متعلقہ فورم سے رجوع کرنا چاہیے۔
Post Comment