جموں کشمیر کی سپریم کورٹ نے جنگل کی اراضیات پر ہاؤسنگ سکیم بنانے کی اجازت دیدی

راولاکوٹ ( کاشگل نیوز)

 

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی عدالت العالیہ نے جنگل کی زمین پر نجی سرمایہ کار کو ہاؤسنگ سکیم بنانے کی اجازت دے دی ہے۔

راولاکوٹ شہر کے ٹاؤن ایریا موضع پڑاٹ میں انتہائی قیمتی اراضی 2ہزار روپے فی کنال کے حساب سے 100کنال اراضی محض دو لاکھ روپے میں ’نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم‘ کی تعمیر کے لیے ایک نجی سرمایہ کار کے حوالے کی گئی تھی۔

ریزرو جنگل کی یہ اراضی انتہائی ارزاں نرخوں الاٹ کیے جانے کا علم اہل علاقہ کو اس وقت ہوا، جب ہاؤسنگ سکیم کے لیے تعمیراتی کام شروع کیا گیا۔

اہل علاقہ نے اس الاٹمنٹ کو عدالت العالیہ میں چیلنج کرتے ہوئے یہ موقف اپنایا تھا کہ یہ جنگلات کی اراضی ہے، اس کو جنگلات کے مقاصد کے لیے ہی استعمال کیا جائے۔ مقامی کمیونٹی اس جنگل کو محفوظ رکھنے کے لیے الاٹمنٹ کے لیے مقرر کی گئی رقم سے پانچ گنا رقم دینے کے لیے بھی تیار ہے۔

جنوری 2023میں دائر ہونے والی رٹ پٹیشن پر گزشتہ ماہ 25اپریل کو فیصلہ سنایا گیا ہے اور رٹ پٹیشن خارج کر دی گئی ہے۔

عدالت نے فیصلہ میں لکھا ہے کہ الاٹمنٹ کے نوٹیفکیشنز کو درخواست گزاروں نے ایک طویل تاخیر کے بعد چیلنج کیا ہے۔ درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے پر انحصار کیا ہے۔ تاہم عدالت نے تاخیر اور یکطرفہ طرز عمل کے تناظر میں سپریم کورٹ کے ایک دوسرے فیصلے کو بنیاد بنایا ہے۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ جہاں تک عوامی مفاد کے مقصد کے تحت زمین کے حصول کا تعلق ہے، یہ ریاستی حکومت کے دائرہ اختیار میں آٹا ہے۔ ہائی کورٹ اپنے غیر معمولی دائرہ اختیار کے تحت معاملے کو دیکھ سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کی مثال سے یہ سبق ملتا ہے کہ صاف شفاف طریقہ کار کی پیروی ضروری ہے، تاکہ عوامی مقصد کے تحت منصوبے مکمل کیے جا سکیں اور عوام کو سستی رہائش فراہم کی جا سکے۔

عدالت نے یہ بھی لکھا کہ درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں ہیں، کیونکہ ان کے پاس متنازعہ زمین پر کوئی قانونی حق نہیں ہے۔ زمین حکومتی ملکیت ہے اور حکومت اسے عوامی مفاد میں استعمال کر رہی ہے۔ اس لیے عوامی فلاح کے لیے شروع کیے گئے کسی منصوبے کو روکا نہیں جا سکتا۔

تاہم عدالت نے یہ ذکر نہیں کیا کہ یہ جنگل کی اراضی ہے اور محکمہ جنگلات سے این او سی لیے اور جنگلات کے تحفظ کے قوانین پر عملدرآمد کیے بغیر انتہائی سستے داموں یہ الاٹ منٹ کر کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے یا نہیں۔

عدالت نے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ درخواست گزار متاثرہ فرد کی تعریف پر پورا نہیں اترتے۔ حکومت چونکہ زمین کی مالک ہے اور اس نے اسے عوامی مفاد، فلاح اور بہبود کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لہٰذا یہ منصوبہ مکمل ہونا چاہیے تاکہ عوامی مفاد کو فروغ ملے۔ لہٰذا زیر غور درخواست مسترد کی جاتی ہے۔

عدالت نے لکھا کہ درخواست گزار کسی بھی غیر قانونی اقدام یا بے ضابطگی کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ قانون اور اصول کی کسی خلاف ورزی کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ درخواست گزاروں کی جانب سے پیش کردہ مثالیں قابل اطلاق نہیں ہیں، کیونکہ موجودہ کیس کے حقائق اور حالات مختلف ہیں۔

عدالت نے لکھا کہ مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں، یہ درخواست بے بنیاد قرار دے کر مسترد کی جاتی ہے۔

یاد رہے کہ قبل ازیں اگست2023میں سپریم کورٹ نے منگلا ڈیم ہاؤسنگ اتھارٹی میرپور کو عوامی استعمال کی جگہوں کی الاٹمنٹ کرنے سے روک دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے ہی پرل ڈویلپمنٹ اتھارٹی(پی ڈی اے) راولاکوٹ کی بنجونسہ میں جنگلات کی زمین پر زیر تعمیر ہاؤسنگ سکیم کا نوٹیفکیشن دہائیوں بعد منسوخ کر کے زمین محکمہ جنگلات کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

اس کے علاوہ پاکستان کی مختلف عدالتوں نے بھی جنگلات کی زمین کی الاٹمنٹس کو منسوخ کر رکھا ہے۔ 6 فروری 2020 کو سپریم کورٹ نے حکومت سندھ کو حکم دیا کہ صوبے میں جنگلات کی زمین پر کی گئی تمام غیر قانونی الاٹمنٹس کو منسوخ کیا جائے اور ان زمینوں کا قبضہ واپس حاصل کیا جائے۔ عدالت نے واضح کیا کہ اس سلسلے میں کوئی غفلت برداشت نہیں کی جائے گی، اور چیف کنزرویٹر کو عدالتی احکامات پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت دی گئی۔

اس کے علاوہ، 27 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے سندھ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ خود جنگلات کی زمین پر قبضے میں ملوث ہیں۔ عدالت نے بحریہ ٹاؤن کراچی اور نواب شاہ کو جنگلات کی زمین الاٹ کرنے پر سوالات اٹھائے اور محکمہ جنگلات سے وضاحت طلب کی۔

16 نومبر 2024 کو لاہور ہائیکورٹ نے سموگ تدارک کیس کی سماعت کے دوران حکومت کو ہدایت دی کہ زرعی زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹیز نہ بنائی جائیں۔ عدالت نے حکومت سے کہا کہ وہ اعلان کرے کہ زرعی زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم نہیں کی جائیں گی۔