کشمیر میں نہ بجھنے والی آگ ۔۔۔ مریم گائبیری

 

مریم گائبیری ایک تحقیقی صحافی ہیں اورملت اخبار استنبول ترکی سے منسلک ہیں۔ملت اخبار استنبول میں شائع ہونے والی اس مضمون کو "کاشگل نیوز” کی ویب سائٹ میں ان کی اجازت سے اورشکریے کے ساتھ شائع کر رہی ہے۔ادارہ

سال 2025 دنیا مختلف خطوں میں عدم استحکام اور بحرانوں سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے، جب کہ جنوبی ایشیا میں 1947 سے جلتی آ رہی ایک آگ ایک بار پھر بھڑک اٹھی۔ کشمیر گزشتہ ہفتے دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کی ایک مسلح تصادم کی سطح تک جا پہنچی، جس نے پوری دنیا کو ساکت کر دیا۔

ہندوستان نے 22 اپریل کو پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کے جواب میں 6 مئی کو پاکستان اور اسکے زیر انتظام آزاد کشمیر پر میزائل حملے کیے، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ امریکہ کی ثالثی سے 10 مئی کو جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا۔

گزشتہ ہفتوں میں ریاست جموں و کشمیر میں ہونے والے حملے، جس میں درجنوں شہری ہلاک ہوئے، نے بھارت و پاکستان کے درمیان ایک نیا بحران کھڑا کر دیا۔ بھارت نے الزام لگایا کہ حملے کے پیچھے پاکستان میں قائم گروہ ہیں، اور سرحد پار فضائی کارروائیاں شروع کیں۔ جواباً پاکستان نے بھارت کے مختلف علاقوں پر میزائل اور ڈرون حملے کیے۔ اس خطرناک صورتِ حال نے پوری دنیا کو فکر میں مبتلا کر دیا۔

یہ سب صرف کشمیر کی سرزمین کی بات نہیں، بلکہ یہ شناخت، وابستگی، سلامتی اور تاریخی تنازعات کا مرکز ہے۔ 1947 سے اب تک بھارت اور پاکستان کشمیر پر تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی تجویز کردہ رائے شماری آج تک نہیں ہو سکی۔ سب سے زیادہ متاثر ہمیشہ کشمیری عوام ہی ہوئے ہیں۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان ان چند عالمی رہنماؤں میں شامل ہیں جو کشمیر کے مسئلے کو بار بار اٹھاتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انہوں نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو غزہ سے تشبیہ دے کر عالمی ضمیر کو مخاطب کیا۔ پاکستان نے ان بیانات کا خیر مقدم کیا جبکہ بھارت نے اس پر شدید ردِعمل دیا۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پاکستان کو ریاستی دہشتگردی کا ذمے دار قرار دیتے ہیں اور کشمیر پر مکمل بھارتی کنٹرول پر زور دیتے ہیں۔ انہوں نے پانی کی تقسیم کے مسئلے کو بھی مذاکرات کی میز پر رکھ کر کشیدگی کو اقتصادی پہلو بھی دے دیا ہے۔

پاکستان میں جمہوریت پر فوج کا سایہ

پاکستان کی سیاسی صورتِ حال بھی مثالی نہیں۔ ملک میں جمہوری نظام پر اکثر فوج اور سیکیورٹی اداروں کا اثر غالب رہتا ہے۔ سیاسی مخالفین کو گرفتار کرنا، میڈیا پر قدغنیں اور جمہوری عمل کی محدودیت ان چیلنجز میں شامل ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ بعض اوقات ان اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔

کیا کشمیر صرف دو ممالک کے درمیان سیکیورٹی کا مسئلہ ہے یا خطے میں امن کا عالمی امتحان؟

زیادہ تر مسلم آبادی پر مشتمل کشمیر کے لوگ خود کو نہ مکمل بھارت کا حصہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے بیانیے سے کوئی بہتری محسوس کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ بندشیں، سیکیورٹی کی زیادتیاں اور بڑھتی ہوئی قوم پرستی مسئلے کو اور بھی گھمبیر بناتی ہے۔

حبیب الرحمان جموں کشمیر پیپلزنیشنل پارٹی(JKPNP سابق ترجمان)

"پہلگام کا حملہ میرے اور میرے خاندان کے لیے بڑا دکھ تھا۔ یہ صرف تشدد نہیں بلکہ امن اور انسانیت پر حملہ تھا۔”
ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی خوش آئند ہے لیکن مستقل امن کے لیے ناکافی، کیونکہ دونوں ممالک کشمیری عوام کی خواہشات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ان کے مطابق امریکہ کی ثالثی اس وقت تک بے معنی ہے جب تک کشمیری عوام کو شامل نہیں کیا جاتا۔

بھارت کی جانب سے پانی کا ہتھیار
انڈس واٹر ٹریٹی کی معطلی اور ہائیڈروپاور پراجیکٹس پاکستان کے لیے خطرہ ہیں۔ پاکستان بھی اپنی زیر انتظام آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے آبی وسائل استعمال کرتا ہے لیکن وہاں کے لوگوں کو شامل نہیں کرتا۔

ترکی ثالثی میں کردار ادا کر سکتا ہے
حبیب الرحمان نے کہا: "حقیقی حل کشمیری عوام کی آواز سننے سے ممکن ہے۔ کشمیر کوئی نقشے کا نقطہ نہیں بلکہ زندہ لوگوں کی سرزمین ہے جن کی تکالیف حقیقی ہیں۔

مبشر آزاد (نیشنل عوامی پارٹی، کشمیر)
انہوں نے آزادانہ ریفرنڈم کے بغیر جنگ بندی کو ناکافی قرار دیا۔ ان کے مطابق 2025 کے انتخابات اور سیاسی پابندیاں جمہوریت نہیں بلکہ دباؤ کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ مسئلے کا واحد حل اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں استصوابِ رائے ہے۔

اشتیاق سید منظور (کشمیری کارکن)
"علاقے سے فوجی انخلا اور کشمیریوں کو اپنی تقدیر کے فیصلے کا حق دینا ہی پائیدار امن کی بنیاد ہے۔” انہوں نے ترکی کے متوازن کردار کی تعریف کی۔

زاہد خان (کشمیری کارکن، بیرونِ ملک)
"پہلے کشمیر کو متحد کرنا اور پھر کشمیریوں کو خود نمائندگی کا اختیار دینا ضروری ہے۔ صرف ایسا ہی مکالمہ پائیدار حل دے سکتا ہے۔

Share this content: