حبیب الرحمٰن جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے ایک سیاسی کارکن اور سابق ترجمان ہیں۔ JKPNP وہ پہلی سیاسی جماعت تھی جس نے جموں کشمیر کو درپیش اصل مسائل کو کھلے عام اجاگر کیا، جن میں پاکستان کی مداخلت اور ریاست کی تقسیم شامل ہیں۔ مریم گائبیری ایک تحقیقی صحافی ہیں اورملت اخبار استنبول ترکی سے منسلک ہیں۔ جنہوں نے کشمیری آزادی پسند رہنما کاحبیب الرحمٰن سے انٹرویو کیا۔جس کا اردو ترجمہ قار ئین کی دلچسپی اور معلومات کے پیش نظر کاشگل نیوز میں شائع کیا جارہا ہے۔ادارہ
سوال:
اپریل 2025 میں پہلگام میں ہونے والے حملے، جس میں 26 سیاح مارے گئے، نے آپ اور آپ کے خاندان کو کس طرح متاثر کیا؟
جواب:
اگرچہ میں آزاد جموں و کشمیر (پاکستان کے زیر قبضہ علاقہ) میں رہتا ہوں اور براہِ راست متاثر نہیں ہوا، لیکن پہلگام کا حملہ میرے اور میرے خاندان کے لیے جذباتی طور پر بہت تکلیف دہ تھا۔ جموں کشمیر ریاست کے ایک شہری کی حیثیت سے میں اس سانحے کو پوری ریاست کا دکھ سمجھتا ہوں، چاہے ہم لائن آف کنٹرول کے جس طرف بھی رہتے ہوں۔
26 بے گناہ سیاحوں کا قتل ایک پرتشدد کارروائی سے بڑھ کر تھا،یہ امن، انسانیت، اور ہماری ریاست کی عظمت پر حملہ تھا۔ میں اور یہاں کے بہت سے لوگ اس بربریت کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ یہ جموں کشمیر کی ان اقدار کے خلاف ہے جن کی بنیاد ہم آہنگی، ہمدردی اور مہمان نوازی پر ہے۔
فاصلے کے باوجود ہم نے اس غم کو محسوس کیا۔ ایسے واقعات ہمیں اس حقیقت کی یاد دلاتے ہیں کہ ایک پرامن مستقبل کی کتنی اشد ضرورت ہے،ایسا مستقبل جہاں جموں کشمیر کا کوئی بھی باشندہ سیاسی یا عسکری ایجنڈوں کی بھینٹ نہ چڑھے۔
سوال:
حالیہ تنازعات کے دوران آپ کو روزمرہ زندگی میں کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا؟ کیا سیکیورٹی، نقل و حمل، یا بنیادی ضروریات کی فراہمی میں مشکلات ہوئیں؟
جواب:
حالیہ پاک،بھارت تنازع کے دوران ہمارے علاقے میں روزمرہ زندگی شدید متاثر ہوئی، خاص طور پر سیکیورٹی، نقل و حرکت، اور نقل مکانی کے مسائل سامنے آئے۔
سیکیورٹی سب سے بڑا مسئلہ رہا۔ جموں کشمیر میں 22 اکتوبر 1947 کو پاکستان کی یلغار سے شروع ہونے والی عدم استحکام کی کیفیت آج بھی جاری ہے۔ حالیہ جھڑپوں نے اس خوف کو مزید بڑھا دیا۔ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف فضائی حملوں نے شہریوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا۔ میرے ضلع پونچھ میں، بھارتی جانب کم از کم 16 شہری پاکستانی حملوں میں ہلاک ہوئے، جبکہ پاکستانی جانب ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔
پاکستان نے شہری علاقوں میں فوجی چوکیوں کا قیام کر رکھا ہے، جن میں ایک میرے گھر کے قریب بھی ہے۔ اس سے عام شہریوں میں عدم تحفظ اور خطرے کا احساس مزید بڑھ گیا ہے۔
نقل و حمل مکمل طور پر متاثر ہوئی، ہر سفر خطرناک بن گیا، اور ٹرانسپورٹ سروسز بند ہوگئیں، جس سے دیگر علاقوں تک رسائی مشکل ہوگئی۔
تعلیم بھی متاثر ہوئی، اسکول بند ہوگئے، بچوں کی تعلیم رک گئی، اور والدین میں بے چینی پیدا ہوئی۔
اگرچہ پاکستانی جانب جہاں میں رہتا ہوں وہاں بنیادی ضروریات کی قلت نہیں ہوئی، لیکن گولہ باری کے باعث کچھ علاقوں میں نقل مکانی ضرور ہوئی۔ بھارتی جانب صورت حال زیادہ خراب تھی، جہاں بڑے پیمانے پر لوگ بے گھر ہوئے اور گھروں کو نقصان پہنچا۔
ہم خوف اور عدم استحکام کی حالت میں جی رہے ہیں، دو ملکوں کے درمیان پھنسے ہوئے۔ ہماری روزمرہ زندگی میں عدم تحفظ، معطل نقل و حرکت، بند اسکول اور جان کا خطرہ شامل ہے، جو ہماری خوشحالی اور مستقبل پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔
سوال:
آپ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ دیرپا امن کی طرف لے جا سکتی ہے؟
جواب:
میں جموں کشمیر کا باشندہ ہونے کے ناطے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا خیرمقدم کرتا ہوں کیونکہ تشدد میں کمی کی ہر کوشش مثبت ہے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہ مستقل امن کا باعث بنے گی، کیونکہ اصل مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔
دونوں ممالک جموں کشمیر کو اپنا حصہ قرار دیتے ہیں، لیکن یہاں کے عوام کی خواہشات کو نظرانداز کرتے ہیں، جن میں سے کئی ایک خودمختار ریاست کے خواہاں ہیں۔ پاکستان کی جانب سے انتہاپسند گروپوں کی بھرتی کا رجحان امن عمل کے لیے خطرہ ہے۔ اس کے علاوہ، عالمی طاقتوں کی اس خطے میں مداخلت بھی صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔
سوال:
آپ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کشمیر تنازع میں ثالثی کی پیشکش کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش سطحی طور پر مثبت نظر آتی ہے، لیکن اس میں ایک بنیادی عنصر کی کمی ہے،جموں کشمیر کے عوام کی شمولیت۔ اس تنازع کا بنیادی فریق کشمیری عوام ہیں، جنہیں اس عمل سے باہر رکھا جا رہا ہے۔ مزید برآں، چین کا ابھرتا ہوا کردار اس معاملے کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔
شملہ معاہدے کے تحت بھارت اور پاکستان نے تمام باہمی مسائل کو پرامن مذاکرات سے حل کرنے کا عزم کیا تھا۔ جب تک دونوں ممالک کشمیری عوام کی خواہشات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک جامع اور شفاف عمل کا آغاز نہیں کرتے، مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
سوال:
آپ بھارت کی جانب سے انڈس واٹر ٹریٹی کی معطلی اور کشمیر میں پن بجلی منصوبوں میں تیزی کو کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب:
انڈس واٹر ٹریٹی بھارت اور پاکستان کے درمیان ورلڈ بینک کی نگرانی میں طے پائی تھی، اور اسے یکطرفہ طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ جن دریاؤں کا ذکر اس معاہدے میں ہے وہ بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر سے نکلتے ہیں۔
آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے ساتھ پاکستان کا کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں ہے، لیکن پاکستان ان دریاؤں کے پانی کو بڑے پیمانے پر استعمال کرتا ہے، بغیر کسی معاوضے کے۔ تمام بڑے پن بجلی منصوبے پاکستان کے کنٹرول میں ہیں، اور AJK حکومت یا گلگت بلتستان کو کوئی بڑا فائدہ نہیں ملتا۔
اگر بھارت اس معاہدے کو معطل کرتا ہے یا پانی کی فراہمی کم کرتا ہے، تو یہ پاکستان کے لیے شدید خطرے کے مترادف ہوگا، کیونکہ پانی پاکستان کی بقاء کا معاملہ ہے۔ ایسا کوئی اقدام دونوں ممالک کے درمیان کھلے تصادم کا باعث بن سکتا ہے۔
سوال:
کشمیر میں 2025ہونے والے انتخابات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا یہ جمہوری عمل کے لیے مثبت ثابت ہوئے؟
جواب:
میں ہمیشہ جمہوری عمل کی حمایت کرتا ہوں، چاہے حالات جیسے بھی ہوں۔ 2025 کے انتخابات جموں کشمیر میں ایک اہم موقع تھے، خاص طور پر آرٹیکل 370 کے خاتمے اور ریاست کی تقسیم کے بعد، بھارتی زیر انتظام علاقے میں بڑی تعداد میں لوگوں نے ووٹ دیا، جو جمہوریت میں ان کی دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔
لیکن انتخابات نے سماجی و سیاسی تقسیم کو بھی ظاہر کیا۔ کشمیر ویلی میں مرکزی حکومت کے خلاف عدم اعتماد دیکھا گیا، جب کہ جموں میں مرکزی حکومت کے ساتھ ہم آہنگی زیادہ نظر آئی۔ انتخابات کے باوجود وادی میں موجود زخم اب بھی تازہ ہیں، جنہیں صرف انتخابی عمل سے نہیں، بلکہ جامع مکالمے اور عوامی اعتماد سے ہی بھرا جا سکتا ہے۔
سوال:
جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے کچھ سیاسی و مذہبی گروہوں پر پابندی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب:
میں جمہوری اقدار پر یقین رکھتا ہوں اور کسی سیاسی یا مذہبی جماعت پر پابندی کا حامی نہیں ہوں۔ لیکن کشمیر کے تناظر میں، بعض گروہ بیرونی ایجنڈوں کے تحت کام کرتے ہیں، خاص طور پر پاکستان سے ان کی وابستگی دیکھی گئی ہے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ کچھ گروہ نوجوانوں کی بھرتی کر کے انہیں پاکستان آرمی کے حوالے کرتے ہیں، جو انہیں بھارتی جانب روانہ کرتے ہیں۔
تاہم، پابندی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ہمیں جمہوری نظام کو مضبوط بنانا چاہیے تاکہ تمام آوازوں کو پرامن دائرے میں سنا جا سکے۔
سوال:
پن بجلی منصوبوں کے ماحولیاتی اور سماجی اثرات کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب:
پن بجلی منصوبے جموں کشمیر کے دونوں طرف قدرتی ماحول اور مقامی آبادیوں پر منفی اثر ڈال رہے ہیں، نیلم،جہلم منصوبے نے دریا کا بڑا حصہ موڑ دیا، جس سے دریائی حیات تباہ ہو گئی۔ مقامی لوگ پانی کی قلت کا شکار ہو چکے ہیں۔
بھارتی جانب بھی ایسی ہی صورت حال ہے، جیسا کہ کشن گنگا منصوبے سے پاکستان کے زیرانتظامعلاقوں میں پانی کی فراہمی متاثر ہوئی۔ یہ منصوبے زمین کھسکنے، مٹی کے کٹاؤ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بن رہے ہیں۔
سماجی سطح پر یہ منصوبے مقامی آبادیوں کو بے گھر کر رہے ہیں، ان کی روزی روٹی متاثر کر رہے ہیں، اور وعدے کے باوجود انہیں فوائد نہیں دیے جا رہے۔
سوال:
حالیہ تنازعات اور سیاسی تبدیلیوں نے آپ کی روزمرہ اور معاشی زندگی پر کیا اثر ڈالا؟
جواب:
ان تنازعات نے ہماری زندگیوں پر منفی اثر ڈالا ہے۔ پاکستان نے AJK میں اپنی گرفت مزید سخت کر دی ہے۔ یہاں آزادی اظہار محدود ہے، سیاسی سرگرمیوں کی گنجائش کم ہے، اور احتجاج پر پابندی ہے۔
نئے قوانین اور جبری گمشدگیوں نے حالات کو بدتر کر دیا ہے۔ AJK میں معاشی مواقع پہلے ہی محدود تھے، اب نقل و حرکت متاثر ہونے سے روزگار کے مواقع مزید کم ہو گئے ہیں، جس سے بے یقینی اور معاشی دباؤ بڑھ گیا ہے۔
سوال:
آپ کے مستقبل کے لیے کیا خواب اور توقعات ہیں؟
جواب:
میرا خواب ایک پرامن، خودمختار اور متحد جموں کشمیر ہے۔ ایک ایسی ریاست جہاں نہ کوئی فوجی موجودگی ہو اور نہ ہی خوف۔ پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ تمام افواج علاقے سے نکل جائیں۔
میں چاہتا ہوں کہ جموں کشمیر ایک آزاد ریاست کے طور پر اپنی شناخت بنائے، اور اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرے۔
سوال:
آپ ترکی کے کشمیر مسئلے سے متعلق رویے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
جواب:
ترکی عالمی سیاست میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے اور کشمیر مسئلے کو حل کرنے میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہ صرف امن کا نہیں، بلکہ آزادی کا معاملہ ہے۔
ترکی نے خود داخلی مسائل کو سیاسی مکالمے سے حل کیا ہے، اور اس کا یہ تجربہ کشمیر تنازع کے حل میں بھی مدد دے سکتا ہے۔ اپنی اسٹریٹجک حیثیت اور امن کوششوں میں کردار کے باعث، ترکی مؤثر ثالث بن سکتا ہے۔
Post Comment