جموں کشمیر ( کاشگل نیوز)
پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر میں گزشتہ روز فورسز کے ہاتھوں ایک مبینہ کارروائی میں اپنے بھائی اور دیگر 2 ساتھویں کے ساتھ مارے جانے والے زرنوش نسیم کے ایک دوست نے سوشل میڈیا پر اس کے ساتھ اپنی آخری بات چیت شائع کی ہے ۔
زرنوش نسیم کے دوست لکھتے ہیں کہ زرنوش کے قتل سے پہلے میری اس سے تقریباً ہفتے میں ایک دو بار ضرور بات ہوتی تھی۔ وہ میرا بچپن کا دوست تھا، ایک انتہائی سلجھا ہوا انسان تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں کل سے شدید رنج میں تھا جس کی وجہ سے تفصیلات شیئر نہیں کر سکا۔
اس نے لکھا کہ زرنوش سے میں کافی دنوں سے یہی کہہ رہا تھا کہ پولیس کے آگے سرنڈر کر دے تو اسکا جواب یہی ہوتا تھا کہ پولیس سرنڈر چاہتی ہی نہیں ہے، وہ بس مجھے مارنا چاہتے ہیں۔
دوست کے مطابق جب وہ اس وقت مجھ سے بات کر رہا تھا تو چنے کھا رہا تھا، جب موسیٰ غزنوی نامی شخص کا اس سے رابطہ ہوا یہ کال اس نے کاٹ دی اور اس نے بتایا کہ موسیٰ غزنونی کا ایک گروہ ہے جو چاہتا ہے کہ میں اسکے ساتھ شامل ہو جائو ں بچ جائو ں گا۔
جب میں نے اس سے پوچھا کہ یہ ہے کون ہے ؟ تو اس نے بتایا کہ یہ جہاد کے نام پر جھوٹ بول رہے ہیں ،انکا ٹارگٹ عوامی ایکشن کمیٹی اور کشمیر کی نیشنلسٹ جماعتوں کے سرگرم کارکنان ہیں جن کو مارنے کا ٹاسک ان کو دیا گیا ہے۔
وہ کہہ رہے تھے کہ یہ لوگ بنیادی طور پر منشیات کے کاروبار سے منسلک ہیں جو کشمیر کے دونوں جانب نوجوان کو منشیات کا عادی بنا کر ان کو انہی کے اشاروں پر کرنا چاہتے ہیں جیسے 90 کی دہائی میں تھا۔
مجھے زرنوش نے بتایا کہ ایسے لوگ ہمارے معاشرے کیلئے زہر قاتل ہیں۔ اگر مجھے کسی کو مارنا ہوتا تو سب سے پہلے ان کو مارتا (اسکا یہ وائس مسیج تاحال میرے پاس محفوظ ہے) انہوں نے جہاد کے نام پر فساد مچا رکھا ہے۔
کافی دن بعد دو دن قبل زرنوش سے میری بات ہوئی تو اسکا کہنا تھا کہ یار میں بھی ایسے بھاگ بھاگ کر تنگ آ گیا ہو ں۔اب میرے پاس دو ہی آپشن ہیں یا میں ان لوگوں کا (موسیٰ غزنوی) کااسلحہ جو یہ اپنے آقا سے لیتے ہیں اور اسکے ہی اشارے پر چلاتے ہیں سے لے کر انکے خلاف ہی لڑ پڑوں یا پھر انکے اشاروں پر کشمیر کا امن تباہ کروں یا پھر موت کو گلے لگا لوں۔(یہ پیغام بھی میرے پاس محفوظ ہے۔)
زرنوش نے بتایا کہ موسی غزنوی سے اس کی بات ہوگئی ہے ،میں اس سے ایک بار ملوں گا کیونکہ وہ میری زندگی کی گارنٹی لے رہا ہے اور قرآن پر حلف اٹھا رہا ہے حالانکہ مجھے اسکی بات پر یقین نہیں ہے لیکن میرے پاس اسکے علاوہ کیا آپشن بچتا ہے ،میں سچ میں ریاست میں انتشار نہیں چاہتا لیکن میرے پاس کوئی آپشن نہیں ہے اور اوپر سے جبران ( جو زرنوش کا چھوٹا سگا بھائی ہے اور زرنوش کے ساتھ مارا گیا) بھی میرے پیچھے پیچھے یہاں پہنچ آیا ہے۔ وقت بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ بندوق لے کر ان تمام لوگوں کا خاتمہ کر دو جنہوں نے میری زندگی کو یہاں تک پہنچایا پھر ان کی فیمیلز کا خیال آتا ہے تو رک جاتا ہوں۔
دو دن قبل جب یہ مبینہ آپریشن ہوا جس میں ان دونوں بھائیوں کو قتل کیا گیا اس سے کچھ دیر قبل میری اس سے آخری بات ہوئی جس میں اس نے یہ بتایا کہ موسیٰ غزنوی نے مجھے قتل کروانے کا ایک کروڑ روپے انعام لیا ہے۔ شاید میں قتل کر دیا جائوں میں اپنا فون توڑ رہا ہوں اور اسکو پھینک رہا ہو ں،سم بھی بند کر رہا ہوں تاکہ میرے وہ دوست جو میرےساتھ رابطے میں تھے ان کیلئے کوئی مشکلات پیدا نہ ہو۔
زرنوش نے کہا کہ میں جبران کو بچانا چاہتا ہو ں لیکن وہ میرے ساتھ مرنا چاہتا ہے، اب زندگی کا کوئی چانس باقی نہیں ہے کیونکہ ہمارے ساتھ جو تیسرا شخص موجود ہے وہ موسیٰ غزنوی کی تنظیم سے ہے اور وہ یہاں پہنچا ہے۔ اسی نے مجھے یہ سب بتایا ہے کہ آگے یہ ہونے والا ہے۔ وہ بیچار ہ بھی ہمارے ساتھ شاید مارا جائے کیونکہ اسکے سامنے ساری پلاننگ ہوئی لیکن اسکا مقصد جہاد تھا ۔اسکو جب پتا چلا یہ فساد ہے تو وہ مجھ تک پہنچا کہ مجھے بچا سکے شاید لیکن یہاں بچنے کی امید باقی نہیں ہے۔