باغ: انسانی تاریخ کے آغاز میں عورتوں کی جد وجہد پر اسٹڈی سرکل

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے علاقے باغ میں جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام گذشتہ روز 13 جون 2025کو” انسانی تاریخ کے آغاز میں عورتوں کی جد وجہد” کے موضوع پر ہفتہ وار خواتین کمیون اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا۔

شرکاہ نے اسٹڈی سرکل میں بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں جو انسانی زندگی کے متعلق دریافتیں چین، انڈونیشیا، بھارت، پاکستان، ایران، عراق، مصر، ایتھوپیا، کینیا، یونان، میکسیکو اور پیرو میں ہوئی ہیں ان سارے قدیمہ کی دریافتوں نے ثابت کر دیا ہے کہ انسان کروڑوں سالوں سے ارتقائی مناظر طے کرتا آ رہا ہے اور یہ اس ارتقائی سفر کے دوران، زندگی کو برقرار رکھنے کی جدوجہد میں مرد اور عورت برابر طور پر شریک کار رہے ہیں۔

انسانی بقا اور افزائش نسل کے عمل میں نوح انسان کی کامیابی کا راز بنیادی طور پر اس سائنسی سچائی میں مضمر ہے کہ جس کے ذریعے انسان نے اپنی خوراک کو پیدا کرنے کے لیے نہ صرف وقتی تقاضوں کے مطابق اوزار بنائے بلکہ ان میں وقت کے ساتھ ساتھ درستگی اصلاح اور بہتری کی۔ مارگن کا کہنا ہے کہ عالم فطرت پر انسان کی ساری برتری کا دارومدار اس بات پر ہے کہ زندگی کے ذرائع پیداوار میں اس نے کتنی مہارت حاصل کی ہے انسان ہی ایک ایسی ہستی ہے جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس نے غذا کی پیداوار پر پوری قدرت حاصل کر لی ہے انسانی ترقی کی بڑی منزلوں کا کم و بیش براہ راست تعلق ذرائع زندگی کے وسیلوں کے ساتھ ہے۔

عہد وحشت:
اس دور کو پتھر کا قدیم زمانہ بھی کہا جاتا ہے اس دور میں انسان پہلے پہل جنگلوں میں رہتا تھا غاروں اور درختوں پر بسیرہ کرتا تھا اس وقت اس کی غذا گاس پھوس جڑیں اور میوے تھی۔ اس دور میں اصلی کارنامہ یہ تھا کہ اس نے بولنا سیکھ لیا تھا۔

عہدے وحشت کے درمیانی دور میں انسان نے پتھروں کی اوزار بنانے شروع کر دیے تھے مچھلی انسانی غذا کا حصہ بن چکی تھی اور اس دور کے انسان نے آگ جلانے کا ہنر بھی سیکھ لیا تھا۔

انسانی ترقی کے ارتقائ عمل کے تسلسل کو بھانپتے ہوئے نظر یہی آتا ہے کہ انسان شکار منظم گروہ میں کیا کرتا تھا۔ اور محض شکار پر ہی گزارہ نہیں کرتا تھا بلکہ وہ جو چیز بھی اس کو ملتی تھی کھا لیتا تھا۔ اس دور میں آدم خوری کا رواج شروع ہوا اور لمبے عرصے تک جاری رہا گارڈن چائلڈ کا کہنا ہے۔
"قابل خوردنی پودوں اور جانوروں کا تعین ان کی جمع کرنے اور شکار کرنے کے طریقوں کی دریافت ان کی دستیابی کے لیے مناسب اوقات اور موسموں کی شناخت سائنس کی جانب اولین کا قدم تھے۔ اس طرح ہمارے علوم نے نباتات، حیوانات، فلکیات اور موسمیات کی جڑیں جنگل کی قدیم علم روایات میں دھنسی ہوئی ہے جبکہ آگ پر قابو اور ابتدائی اوزاروں کی تیاری کے عمل نے ان اصولوں کی ابتدا کی جوکہ بلآخر علم طبعیات اور کیمیا کی شکل میں پروان چڑھے۔”

عہدے وحشت کی آخری دور کی ابتدا تیر کمان کی ایجاد سے ہوئی جو انسان کا پہلا پیچیدہ ہتھیار ہے کچھ گروہ بھالا پھینکنے کا ایک ایسا اعلی استعمال کرتے تھے جو اس میزائل کی مار میں اضافہ کر دیتا تھا اور اس کے نشانے کو بھی مزید درست کر دیتا تھا۔ پتھر کے قدیم زمانہ کے آخری حصے کے تمام معاشروں میں یہ قدر مشترک ہے کہ وہ ہڈی اور ہاتھی دانت کے اوزار استعمال کرتے تھے۔ اور سخت پتھر کی کاریگری کے جداگانہ روایات کے مالک تھے۔ اس دور میں لکڑی کے برتن اور ٹوکریاں بنانے کا ہنر بھی عام ہو چکا تھا۔ غرضیکہ اب انسان نے پتھر کے علاؤہ ہڈی، سینگ اور ہاتھی دانت پر بھی درازی اور کاری کری شروع کر دی تھی۔

اس دور میں مکان بنانے کے لیے مٹی اور لکڑی کا استعمال شروع ہوا اور بعض علاقوں میں کھال کے ٹینٹ بنائے جانے لگے تھے۔ شاید لکڑی کمیاب تھی یا لکڑی کو کاٹ کر استعمال لانے والے گزار انسان بنانے میں ابھی کامیاب نہیں ہوا تھا اس لیے یہ لوگ ہڈیاں جلا کر اپنے گھروں کو گرم کرتے تھے۔

جادو کی رسم کی ابتدا ابھی اسی زمانے میں ہوئی مختلف حیوانوں اور وحشی جانوروں کی تصویریں غاروں کے اندر بنائی جاتی تھی جو اس وقت کے انسانوں کی نظر میں جادو کا اثر رکھتی تھی اس طرح غذا کی مناسب مقدار کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے شکار کے لیے اور شکار کے تعاقب میں کامیابی کے لیے بھی جادوئی رسومات تشکیل دی گئیں تھیں۔

پتھر کے قدیم زمانے کے اخری دور کی ثقافت مصوری سے بہت مستفد ہوئی۔ عصر حاضر کے مصور بھی مختلف ممالک کے غاروں کی نقش نگاری اور تصاویر کی خوبصورتی کی تعریف کرتے ہیں۔ اس جادو کی رسم میں مصوری کے علاؤہ موسیقی بھی کردار ادا کرتی ہو۔ چونکہ غاروں میں ہڈی کی نلیاں اور سیٹیاں بھی ملتی ہیں۔

عہدے وحشت کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس زمانے میں پرانی قسم کا اشتراکی نظام قائم تھا۔ ابھی نجی ملکیت کا آغاز، اس کے بنا پر طبقات اور انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال شروع نہیں ہوا تھا۔

عہد بربریت:
اس دور کی ابتدا میں مٹی کے برتن بنائے جانے لگے۔ انسان نے جانوروں کو پالنا، ان کی افزائشِ نسل اور پودوں کی کاشتکاری شروع کر دی تھی۔ اس کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس دور میں معاشی انقلاب کا آغاز ہوا جس کی ابتدا عورت نے کی۔

گارٹن چائلڈ کا کہنا ہے۔۔۔۔۔
"وحشیانہ طرز زندگی کی بند گلی سے چھٹکارا ایسا علمی اور معاشی انقلاب ہے جس کے نتیجے میں انسانی گروہ فطرت کا طفلی نہ رہے۔ بلکہ اس کے مستعدد اور سرگرم ساجھی بن گئے ہمیں یہ مفروضہ قائم کرنا پڑتا ہے کہ نئے انقلابیوں کے نقیب معاشروں میں مرد شکار کرتے تھے۔ جبکہ عورتیں پھلوں کی علاوہ خوردروگھاس کے ایسے بیج چنا کرتی تھی جو ہمارے گہیوں اور جو کہ شجر سے تعلق رکھتے ہیں فیصلہ کون قدم اس وقت اٹھا جب انسان (عورت) نے اس بیج کو شعوری طور پر مناسب زمین میں بونا شروع کیا اور پھر اس بوئی ہوئی زمین کی نگہداشت کرنے کے لیے زمین پر اگنے والی غیر ضروری پودوں کو اکھاڑ پھینکنے کے علاوہ دیگر اقدامات اٹھائے۔ جہاں جہاں اور جس جس معاشرے میں یہ عمل جاری ہوا وہ معاشرہ پیداواری عمل کر رہا تھا۔ اور اپنے غذائی ذخائر کو فروغ دے رہا تھا۔ اس معاشرے کے لیے یہ ممکن تھا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی کفالت کے لیے غذا کے ذخیرے میں اضافہ کرے۔”

علم بشریات کی ایک دبستان فکر کے نزدیک مویشی پالنے کا فن براہ راست شکار کے فن کا وارث ہے اس طبقہ فکر کے نزدیک مویشی پالنے کا فن کو اختیار کرنے کے لیے فن زراعت نے کوئی امدادی محرک فراہم نہیں کی ان لوگوں کا خیال ہے کہ مویشی پالنے والوں نے زراعت کرنے والے لوگوں کو مغلوب کر کے ایسی نئی درجاتی گروہوں کو جنم دیا جس میں دو اقسام کے کام کرنے والے لوگ بیک وقت موجود تھے۔

جس کے نتیجہ میں بالاخر مویشی پالنے اور زراعت کرنے کے فنون کا باہم امتزاج ہوا لیکن یہ بات اس لیے درست معلوم نہیں ہوتی کہ بربریت کے ابتدائی دور کے ابتدائی ترین باقیات بھی ایسے انسانی گروہوں کی نشاندہی کرتی ہیں جنہوں نے تمام جانور پالنا شروع کر دیے تھے۔

عہد بربریت کے درمیانی دور میں کچی اینٹوں اور پتھروں کے گھروں کی تعمیر شروع ہو چکی تھی۔ ایسے مکانوں کی آثار ایشیا، افریقہ اور یورپ میں بکثرت ملے ہیں۔

عہد بربریت کے اخری دور کی ابتدا اس وقت سے ہوئی جب انسان نے کچے لوہے کو پگھلا کر صاف کرنے اور حرف تہجی کے لکھنے کا فن ایجاد کیا اور تحریروں میں اس سے کام لیا جانے لگا اور یہ دور آہستہ آہستہ ختم ہو کر تہذیب کے عہد میں ڈھل گیا۔

اس عہد میں ہمیں پہلے پہل ہل ملتے ہیں جن کی وجہ سے بڑے پیمانے پر اس زمانے کے لحاظ سے ذرائع زندگی میں اضافہ ہوا۔ جنگل صاف کیے گئے اور چراہ گائیں بنائی گئی۔ جو کلہاڑی اور پھاوڑے کیے بغیر ممکن نہیں تھا۔

اس دور کے انقلاب کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ آدمی بلکہ شاید یہ بات کہنا زیادہ درست ہوگا کہ عورت موزوں پودوں ان کے طریقہ کاشت کے بارے میں جانے، علاؤہ ازیں پھر اس کو غذا میں تبدیل کرنے کے لیے مصنوعی آلات ترتیب دئیے گئے۔ گیہوں اور اور جو کو پہلے صاف کیا جاتا تھا پھر دانوں کو پیس کر آٹا بنایا جاتا تھا۔ آٹا پیسنے والی چکیوں کا ضروری تھا کہ وہ سخت پتھر کی ہوں ورنہ غذا میں آٹے کے ساتھ پتھر کے ذرات بھی شامل ہو سکتے تھے۔ آٹے سے بآسانی دلیہ یا روٹیاں بنائی جا سکتی تھیں۔ گارڈن چائلڈ کا کہنا ہے۔۔۔۔۔
” علم بشریات کے خواہد کی رو سے مندرجہ بالا تمام ایجادات اور دریافتیں عورتوں نے سر انجام دی تھیں۔ اس طرح ظروف سازی کی کیمیا، جولاہے کے تکلے کی حیات، راچھے کی مکانیات اور روٹی اور پٹ سن کی نباتات کے دریافت کا سہرا بھی اسی صنف کے سر ہے۔”