باغ ( کاشگل نیوز)
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں پولیس فورسزمیں سہولیات کی عدم فراہمی پر محکمہ پولیس کے اہلکاروں کی جانب سے احتجاج کی دھمکی دینے کی پاداش میں حکومت نے نئی فورسز کے قیام کا اعلان کیا ہے۔
جموں میں داخلی سکیورٹی کے لیے قائم محکمہ پولیس کے ملازمین نے نئے مالی سال کے بجٹ سے قبل اپنا ایک چارٹر آف ڈیمانڈ اعلیٰ حکام کو فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی عام کیا۔ اس چارٹر آف ڈیمانڈ کے حق میں پولیس ملازمین اور افسران نے رائے عامہ بھی ہموار کرنے کی کوشش کی۔
گزشتہ روز سے سوشل میڈیا پر یہ اعلانات سامنے آئے کہ چارٹر آف ڈیمانڈ کی عدم منظوری کی صورت جمعیت پولیس 21 جولائی سے ہڑتال کرے گی۔ جمعیت پولیس کے اس اعلان پر گزشتہ روز میڈیا پر بھی چرچا رہا اور بعد ازاں جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے اپنے اجلاس کے اختتام پر گزشتہ شام گئے جاری کردہ اعلامیے میں پولیس کی ہڑتال کی حمایت کا اعلان بھی کر دیا۔
ایکشن کمیٹی کی جانب سے ہڑتال کی حمایت کے بعد آج پولیس کی اعلیٰ قیادت سوشل میڈیا پر سرگرم ہوئی ہے۔ ڈی ایس پی ریزرو کی ایک چٹھی پولیس اہلکاروں نے سوشل میڈیا پر لیک کی ہے، جس میں پولیس ملازمین کو دھمکی دی گئی ہے کہ وہ سپیشل سروس میں آتے ہیں اور وہ ہڑتال نہیں کرسکتے، نہ ہی سوشل میڈیا پر اپنے مطالبات کے حق میں پوسٹیں لگا سکتے ہیں۔ اس لیے جو بھی پوسٹ لگائے گا، اس کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
ترجمان پولیس کی جانب سے ایک پریس ریلیز بھی سوشل میڈیا پر جاری کی گئی ہے، جس میں نام لیے بغیر ایکشن کمیٹی کے اعلامیے میں پولیس ہڑتال کی حمایت کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے۔ ترجمان پولیس نے سوشل میڈیا پر ہڑتال سے متعلق چلنے والی خبروں کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ کوئی ہڑتال نہیں ہورہی ہے۔ پولیس افسران اپنے ملازمین کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہیں۔ پولیس ڈسپلن فورس ہے اور مسائل کے حل کا پورا ضابطہ کار موجود ہے۔
ترجمان پولیس نے یہ بھی کہا کہ پولیس ملازمین کو کسی شرپسند شخص، سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت اور ہمدردی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ترجمان پولیس نے یہ بھی کہا کہ جمعیت پولیس کے نام پر سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ کرنے والے عناصر کے خلاف تادیبی کارروائی کا بھی آغاز کر دیا گیا ہے۔
پولیس ملازمین کے سامنے آنے والے مطالبات میں رسک الاؤنس ، راشن الاؤنس، فکس ٹی اے ڈی اے، ہیلتھ الاؤنس، ڈسپیریٹی الاؤنس، کٹ الاؤنس، سپیشل الاؤنس، ہاؤس رینٹ، کنونس الاؤنس، اور لاء انفورسمنٹ الاؤنس میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تاہم اب پولیس ترجمان ان مطالبات سے متعلق احتجاج کی تردید کر رہے ہیں اور ڈی ایس پی ریزرو کا لیٹر یہ ظاہر کر رہا ہے کہ محکمانہ طور پر پولیس ملازموں کے احتجاج کو توڑنے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے وفاق میں داخلی سکیورٹی کے لیےایک اور فورس قائم کرنے کا آرڈیننس جاری ہوچکا ہے۔ پہلے سے قائم داخلی سکیورٹی کے محکموں کو بھی مناسب سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ریاست نئے محکمے بنا کر احتجاجوں کا راستہ روکنا چاہتی ہے۔
داخلی سکیورٹی کے نام پر ماضی میں قائم محکموں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو جہاں ریاست انہیں جمہوری حقوق کو کچلنے کے لیے استعمال کرتی آئی ہے، وہیں ناکافی سہولیات، کم تنخواہوں اور ملازمت کے طویل اوقات کار کی وجہ سے ان محکموں کے ملازم اور افسران نہ صرف اکتاہٹ کا شکار ہو کر اپنے کام سے بیگانہ ہوجاتے ہیں، بلکہ وہ خود جرائم کا حصہ بن کر عام عوام کے لیے ایک نئی مصیبت بن جاتے ہیں۔
نفسیاتی مسائل ، وحشت و بربریت کے ساتھ ناکوں، چیک پوائنٹس، انٹری پوائنٹس، گشت کے دوران یا چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران لوگوں سے رشوت لینا، بلاجواز تنگ کر کے ان سے رقوم بٹورنا، جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کر کے ان سے کمیشن وصول کرنا، اغواء برائے تاوان سے منشیات فروشی تک کے دھندوں میں ملوث ہونا ایک معمول بن چکا ہے۔
انہی مسائل کا شکار اہلکاروں کو پھر جب ریاست ان جرائم میں چھوٹ دے کر سیاسی آوازوں کو کچلنے پر معمور کرتی ہے تو وہ انتہائی وحشیانہ طریقے سے ریاستی مفادات کے تحفظ کے لیے مظاہرین کو کچلتے ہیں۔ چند سال پہلے تھوراڑ کے ایک نوجوان کو راولاکوٹ چوکی پر جس طرح وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، وہ صرف ایک مثال ہے۔
اسی طرح کم وسائل، الاؤنسز نہ ہونے اور گاڑی کا فیول نہ ہونے کے بہانے سے سائلین سے رقوم لیے بغیر پولیس اہلکار و افسر کہیں کارروائی پر، موقع ملاحظہ کرنے یا کسی کو گرفتار کرنے بھی نہیں جاتے۔ ایف آئی آر کی رجسٹریشن سے ملزمان کی گرفتاری اور پھر ملزم اور مستغیث دونوں کو حمایت کا جھانسہ دے کر رقوم بٹورنہ بھی ایک معمول ہے۔
ابھی دو اڑھائی سال سے اس خطے میں تحریک چل رہی ہے اور اس دوران حکومت نے جتنے بھی مقدمات قائم کروائے، انہیں ختم کرنے کے بارہا معاہدے کیے جا چکے ہیں۔ اسی پولیس نے جعل سازی کرتے ہوئے ان مقدمات میں نامزد ملزمان کو مفرور قرار دے کر وہ مقدمات چالان کر دیے ہیں تاکہ اب حکومت یا پولیس کی بجائے تمام نامزد سیاسی کارکنوں کو عدالتوں کے چکر لگانے پر مجبور کیا جا سکے اور مستقبل میں عوامی حقوق کی بازیابی کے لیے احتجاج سے باز و ممنوع رکھا جا سکے۔
یہاں اس تمہید کا مقصد یہ نہیں ہے کہ پولیس ملازمین کے مسائل حل نہ کیے جائیں، یا انہیں الاؤنسز نہ ادا کیے جائیں۔ تاہم یہ مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ کن محکموں کے قیام اور ان کی مضبوطی کی حمایت و مطالبہ کرنا ضروری ہے اور کن محکموں کے خاتمے کی مانگ کرنا اہم ہے۔
اس پیرائے میں یہ اہم ہے کہ پولیس جیسے محکموں کو مضبوط کرنے کی بجائے ان کی تحلیل کے مطالبے کو عام کیا جائے۔ کیونکہ یہ محکمے طبقاتی جبر کو عام کرنے، سیاسی آوازوں اور تحریکوں کو کچلنے اور نوآبادیاتی قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، اور سیاسی کارکنوں کو دہشت گرد قرار دے کر انہیں جعلی اور بے بنیاد مقدمہ بازی میں الجھانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
اس لیے پولیس ملازمین کی اچھے سائیکاٹرسٹ سے سرکاری سطح پر کاؤنسلنگ کروانے اور انہیں کمیونٹی سروس کے لیے کمیونٹی کی ماتحت کرنے کے مطالبات کیے جانے چاہئیں۔ کونسلروں اور شہری حکومتوں کو پولیس کے مخبر کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے انہیں وارڈ سطح پر عوامی کمیٹیوں کے قیام پر معمور کیا جانا چاہیے، اور پولیس کو عبوری طور پر ان کمیٹیوں کے ماتحت رکھ کر کمیونٹی سروس کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ پولیس ملازمین کو رائج الوقت قوانین کے تحت تنخواہیں اور مراعات دی جائیں، بلکہ رائج الوقت قوانین میں بھی تبدیلی کر کے تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کیا جائے۔ تاہم پولیس محکمے کو ری سٹرکچر بھی کیا جائے اور عبوری طور پر کمیونٹی کے ماتحت کیا جائے۔
Share this content:


