آزادی اظہار پر قدغن، جموں کشمیر میں 5 صحافیوں پر پابندی عائد کردی گئی

مظفرآباد ( کاشگل نیوز)

پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے کٹھ پتلی وزیراعظم چوہدری انوارالحق نے ایک بار پھر آزادیٔ صحافت کو نشانہ بناتے ہوئے مظفرآباد کے پانچ نمایاں صحافیوں عبدالحکیم کشمیری، جاوید اقبال ہاشمی، سردار نعیم چغتائی، نسرین شیخ اور سردار عدنان پر غیر اعلانیہ مگر واضح پابندی عائد کر دی ہے۔

ان صحافیوں کو سرکاری تقریبات اور پریس کانفرنسز میں شرکت سے روکنے کی "خصوصی ہدایات” وزیراعظم ہاؤس سے مقامی انتظامیہ اور محکمہ اطلاعات کو جاری کی گئی ہیں۔

ذرائع کے مطابق ہدایات میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مذکورہ صحافیوں کو سرکاری ایونٹس میں داخل نہ ہونے دیا جائے اور اگر وہ کسی تقریب میں پہنچ بھی جائیں، تو حکومتی اسکینڈلز یا بدعنوانی سے متعلق سوالات کی صورت میں فوراً سیکیورٹی مداخلت کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان صحافیوں کو "غیر مطلوب عناصر” قرار دے کر فہرستیں مرتب کی جا رہی ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ وزیراعظم انوارالحق نے آزادیٔ صحافت کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کیا ہو۔ اس سے قبل ریاست کے مؤقر اخبارات جموں و کشمیر، سٹیٹ ویوز اور دی کوٹلینز کو بھی دو سال سے سرکاری اشتہارات سے محروم رکھا گیا، جبکہ ان اداروں سے وابستہ صحافیوں پر جھوٹے مقدمات بھی قائم کیے گئے۔

تازہ ترین پابندی کی زد میں آنے والے صحافیوں میں وہ دو نام بھی شامل ہیں جو چوہدری انوار الحق کے قریبی "بھائی دوست” سمجھے جاتے تھے۔ عبدالحکیم کشمیری اور سردار نعیم چغتائی طویل عرصہ انوارالحق کے قریبی رفیق رہے، مگر اب جب وہ تنقیدی سوالات اٹھانے لگے ہیں، تو سرکاری دروازے ان پر بند کر دیے گئے ہیں۔

سردار نعیم چغتائی تو گزشتہ چار وزرائے اعظم کے ادوار میں محکمہ اطلاعات کو اپنا دشمن بنا بیٹھے، اکثر وزیر اور وزرائے اعظم ان کو پسند نہ کرتے تھے اسی وجہ سے حوالات میں بھی پابند رہے ۔اب کی بر "آخری سال” میں ان کا نام ہٹ لسٹ میں آنا حیران کن ہے۔ جاوید اقبال ہاشمی، جو ہمیشہ تحقیقاتی صحافت کے علمبردار رہے اور اخبار آزادی کی مدیر نسرین شیخ کو بھی اب سرکاری محفلوں سے باہر رکھا جا رہا ہے کیونکہ وہ سرکاری پریس کانفرنسز کا ماحول تلخ سوالوں سے خراب کر دیتی ہیں۔ نوجوان صحافی سردار عدنان جنہوں نے مختصر وقت میں میڈیا پر اپنی پہچان بنائی، ان کی آواز بھی وزیراعظم کیلئے ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔

یہ وہی چوہدری انوارالحق ہیں جو کبھی نامور صحافی عامر محبوب کے شاگرد ہوا کرتے تھے، انہی کی سرپرستی میں صحافت کا ہنر جموں کشمیر اخبار سے سیکھا، مگر اقتدار میں آ کر انہی کے خلاف انتقامی اقدامات شروع کر دیے۔ سوال یہ ہے کہ جو شخص اپنے استاد اور دیرینہ ساتھیوں کا وفادار نہ رہا، اس سے جمہوریت یا صحافت سے وفاداری کی امید کیسے رکھی جا سکتی ہے؟

اگر انوار حکومت کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں، تو سوالات سے خوف کیوں؟ اگر پالیسی صاف ہے، تو صحافیوں کو اسمبلی اور فورمز پر جانے سے روکنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟؟

چوہدری انوار الحق سنٹرل پریس کلب مظفرآباد میں اپنے دروازے بند کرتے نظر آرہے ہیں۔ نو منتخب صدر سنٹرل پریس کلب سجاد میر فارن میڈیا سے منسلک ہیں ان کو آزادی صحافت کا پابند صحافت کا اچھے سے ادراک ہے وہ کمپرومائز نہیں کریں گے بلکہ اگر مظفرآباد کے صحافیوں کے ساتھ یہی حکومتی رویہ برقرار رہا تو وہ فریڈم آف پریس تحریک کو جلد ہی لیڈ کرتے نظر آئیں گے۔

Share this content: