گلگت بلتستان کے ضلع چلاس کے علاقے بابو سر ٹاپ پر سیلابی ریلے کے کم ازکم 15 لاپتہ سیاحوں کی تلاش کے لیے سرج آپریشن جاری ہے۔
گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق کے مطابق اس وقت مختلف اضلاع اور مقامات پر سیلاب کی بدترین صورتحال ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کی حکومت نے خراب موسم سے ہونے والی تباہی کے حوالے سے رپورٹ وفاق کو ارسال کی ہے۔
ترجمان فیض اللہ فراق کے مطابق ابتک بابو سر ٹاپ سے سے سات لاشیں ملبے کے نیچے سے نکالی جا چکی ہیں۔ جن میں چھ سیاح شامل ہیں جبکہ ایک مقامی شخص ہے۔
اس میں لودھراں کے خاندان کے لاپتہ بچے ہادی کی لاش بھی مل گئی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’کہ اب بھی ہمارا اندازہ ہے کہ بابو سر ٹاپ پر کم از کم پندرہ سیاح لاپتہ ہیں جن کی تلاش کا کام کیا جارہا ہے۔ باقی جو سیاح مقامی لوگوں کے گھروں میں تھے ان کو چلاس پہنچا دیا گیا ہے اور اس وقت وہاں پر بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن اور ملبہ ہٹانے کا کام کیا جارہا ہے جس میں بارش اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ضلع دیا میر کے علاقے تھور نالہ میں سیلابی ریلے میں دو بچے بہہ چکے ہیں۔ تانگیر کے علاقے میں پاور ہاوس کو نقصان پہنچا ہے۔
’مختلف مقامات پر سیلابی ریلوں کی اطلاعات ہیں۔ ہمارے محتاط ترین اندازوں کے مطابق اس وقت بھی گلگت بلتستان کے اسیّ فیصد علاقوں میں سیلابی ریلے آچکے ہیں۔‘
فیض اللہ فراق کا کہنا تھا کہ گلگت میں قراقرم یونیورسٹی والا علاقہ متاثر ہوا ہے۔
استور میں گھروں کو نقصان پہنچا اور ایک خاتون ہلاک ہوئی ہیں۔
گانچھے اور ڈھانچے میں بھی سیلابی ریلے آئے ہیں جہاں پر نقصانات ہوئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں اربوں روپے کا انفراسٹریکچر تباہ ہوچکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کی حکومت نے موجودہ حالات کے حوالے سے رپورٹ وفاق کو ارسال کی ہے۔ گلگت بلتستان حکومت نے حالیہ بدترین سیلابی صورتحال میں اپنے وسائل سے بڑھ کر مدد کی ہے اب وفاقی حکومت کی جانب سے خصوصی گرانٹ کی اپیل کی جارہی ہے تاکہ انفراسٹریکچر کے علاوہ عام لوگوں کے نقصانات کا ازالہ ہوسکے
۔
Share this content:


