لیڈی پولیس اہلکار کی غیر قانونی تقرری کے خلاف بولنے پر شہری گرفتار، لوگ سراپا احتجاج

مظفرآباد( کاشگل نیوزتحقیقاتی رپورٹ)

پاکستان کے زیر انتظام مقبوضہ جموں میں لیڈی پولیس اہلکار کی غیر قانونی تقرری کے خلاف بولنے پر ایک شہری کوگرفتار کرلیا گیا جس کے ردعمل میں لوگ سراپا احتجاج ہیں۔

سوشل میڈیا پر پولیس کانسٹیبل لائبہ قریشی کی تعیناتی کا معاملہ ایک پر پھر ابھر کر سامنے آیا،گزشتہ روز ایک شہری احمد مغل کو لیڈیز پولیس اہلکار کے حوالے سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا جس کے بعد گرفتار شہری کے حق میں کل اور آج پاکستان زیر انتظام مقبوضہ جموں و کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں احتجاج کیا گیا ہے۔

کل احمد مغل کے حق میں مظاہرہ کرتے ہوئے مظاہرین چوہدری احسن نے کہا کہ”سابقہ پانچ سالہ ٹک ٹاکر سپیشلسٹ جس نے 5 سال ٹک ٹاک استعمال کی،اب اسے عزت نفس کا مسئلہ آرہا ہے،میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں،کسی کی ذاتی خواہش پوری کرنے کیلئے احمد مغل کو گرفتار کیا گیا”جبکہ آج ہوئے مظاہرہ میں بھی احمد مغل کی رہائی اور لیڈی کانسٹیبل کی تعیناتی کے غیر قانونی ہونے پر بات کی گئی ہے۔

کیا سپریم کورٹ کے ڈیتھ کوٹہ ختم کرنے کے واضح فیصلہ جات کے باوجود پولیس میں ڈیتھ کوٹہ پر بھرتی قانونی ہے؟اس حوالے سے محکمہ پولیس کا کیا موقف ہے۔

کاشگل نیوزکی تحقیقاتی ٹیم نے اس معاملے پر موقف لینے کے لیے سب سے پہلے ایس ایس پی مظفرآباد ریاض حیدر بخاری سے رابطہ کیا،ریاض حیدر بخاری نے اس معاملے پر کوئی واضح موقف دینے سے گریز کرتے ہوئے یہ کہا کہ "یہ بھرتی ریزور پولیس کی ہے،اس حوالے سے آپ کو بہتر معلومات ایس ایس پی ریزرو دے سکتے ہیں،ڈسٹرکٹ پولیس کا اس بھرتی سے براہ راست کوئی تعلق نہیں”جسکے بعد کاشگل کی ٹیم نے ایس ایس پی ریزرو ریاض مغل سے ذرائع کے زریعے انفارمیشن لی،ریاض مغل نے اس معاملے پر موقف دیتے ہوئے کہا”پولیس میں ڈیتھ کوٹہ پر تعیناتیاں عرصے سے جاری ہیں اور یہ عمل مسلسل ہو رہا ہے اس سے قبل بھی پچھلے سال پولیس کے شہید ہونے والے اہلکاروں کے بچوں کو نوکریاں دی گئی ہیں اور لائبہ قریشی کی تعیناتی بھی اسی قانون کے تحت کی گئی ہے،ریزرو پولیس صرف پالیسی احکامات پر عمل کرنے والا ایک سیکشن ہے،جبکہ مرکزی پالیسی سنٹرل پولیس آفس CPO دیتا ہے، اور وہیں سے یہ پالیسی بنی ہے،جس کے تحت ان کو بھرتی کیا گیا ہے” کاشگل ذرائع نے سوال کیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس فائز عیسیٰ،جسٹس نعیم اختر،جسٹس شہید بلال حسن پر مشتمل بینچ نے 2024 میں "جی پی او بنام جلال احمد” کیس میں ڈیتھ کوٹہ پر مبنی بھرتیوں کو آئین کے آرٹیکل 3، 4، 5(2)، 18، 25(1)، اور 27 سے متصادم قرار دیا اور ڈیتھ کوٹہ پر بھرتیوں کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا،اسے تناظر میں پاکستان زیر انتظام مقبوضہ جموں و کشمیر کی اعلیٰ عدلیہ نے بھی 2024 میں کیس "راجہ خالد بنام راحت ممتاز” میں بھی ڈیتھ کوٹہ پر ہونے والی تقرریوں کو غیر قانونی قرار دیا ہے تو ایسے میں پولیس ڈیتھ کوٹہ پر بھرتیاں قانونی ہیں؟یا پولیس سپریم کورٹ کے دائرے کار میں نہیں آتی۔

اس پر ایس ایس پی ریزرو ریاض مغل کا کہنا تھا کہ وہ اس فیصلے سے مکمل آگاہ نہیں ہیں،تاہم آزاد کشمیر پولیس میں ڈیتھ کوٹہ پر بھرتیاں تواتر سے جاری ہیں،لیڈیز پولیس اہلکار کی بھرتی کب،کیسے ہوئی اس کی تفصیلات فراہم نہیں کی جاسکتیں،تاہم سی پی او اس حوالے سے تفصیلات فراہم کرنے کا مجاز ہے۔

تاہم مزید اس حوالے سے سنٹرل پولیس آفس سے رابطہ کیا ہے،آئی جی مقبوضہ جموں و کشمیر کے ترجمان کے مطابق پولیس رولز میں 2011 میں ترمیم کے تحت پولیس میں مرنے والے ایسے اہلکار جو حاضر سروس فوت ہوئے ان کے بچوں کو نوکریاں دی جاتی ہیں،اور یہ بالکل قانون کے مطابق ہے پولیس رولز میں ڈیتھ کوٹہ کی ترمیم 2011 میں کی گئی،جسے حکومت نے 2018 سے لے کے 2021 تک منقطع کیا تھا البتہ 2021 کے بعد دوبارہ اس کوٹے کو بحال کیا گیا، اور اسی کے تحت تقرریاں کی جا رہی ہیں۔

کاشگل نیوزذرائع نے آئی جی آفس کو بھی سپریم کورٹ آف پاکستان و جموں و کشمیر کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان فیصلہ جات کے بعد جموں و کشمیر کے جملہ محکمہ جات میں ڈیتھ کوٹہ ختم ہوچکا ہے،تو یہ بھرتیاں کس قانون کے تحت کی گئی ہیں۔

اس پر آئی جی آفس کی جانب سے یہ کہا گیا کہ”آزاد کشمیر عدلیہ کا یہ فیصلہ باقی جنرل محکمہ جات کیلئے ہے،پولیس چونکہ یونیفارم ہولڈر فورس ہے،اور ان کیلئے "سپیشل لا” ہے اس لیے یہ فیصلہ پولیس کے محکمہ پر اثر انداز نہیں ہوتا، ہاں اگر کوئی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں بلخصوص پولیس رولز کی ڈیتھ کوٹہ ترمیم کو چیلنج کرتا ہے،اور اس کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو تب ہی پولیس ڈیتھ کوٹہ ختم تصور ہوگا۔

کیا واقعی پاکستانی مقبوضہ جموں و کشمیر سپریم کورٹ کا فیصلے کا اطلاق جموں و کشمیر پولیس پر نہیں ہوتا۔

کاشگل نیوزنے اس حوالے سے 2024 کے ڈیتھ کوٹہ کیس میں سپریم کورٹ جانے والے ایڈووکیٹ راجہ آفتاب سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ اس کیس میں کیا فیصلہ کیا گیا تھا اور کیا اس فیصلے کا اطلاق جموں و کشمیر پولیس پر ہوتا ہے؟

راجہ آفتاب ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ میں بحیثیت وکیل "راجہ خالد بنام راحت ممتاز” کیس کا حصہ رہا ہوں،گو کہ ہم یہ کیس ہار گئے لیکن سپریم کورٹ نے اس کیس کی ججمنٹ یہ واضح حکم دیا ہے کہ جموں وکشمیر میں ڈیتھ کوٹہ پر کوئی بھرتی قانونی نہیں،اور آئندہ تمام محکمہ جات سے ڈیتھ کوٹہ ختم کیا جائے،جہاں تک اس بات کا تعلق ہیکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق محکمہ پولیس پر نہیں ہوتا تو یہ بات سراسر غلط ہے،سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق تمام محکموں سمیت پولیس پر بھی ہوتا ہے،اور یہ کہنا کہ پولیس کیلئے سپیشل لا ہے،یہ بات ممکن نہیں،سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد محکمہ پولیس میں ڈیتھ کوٹہ پر ہونے والی بھرتیاں غیر قانونی ہی تصور ہونگی۔

کاشگل نیوز ذرائع نے جموں و کشمیر کے معروف نوجوان قانون دان،ایڈوکیٹ سپریم کورٹ سید ذوالقرنین نقوی سے بھی اس حوالے سے رائے لی ہے،ذوالقرنین نقوی نے کہا کہ یہ بات بالکل بے معنی ہے سپریم کورٹ کے فیصلہ جات جموں و کشمیر کے 31 محکموں پر تو اطلاق ہوتے ہیں لیکن پولیس اس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی،یہ سپریم کورٹ آف جموں و کشمیر ہے،جو پوری ریاست کا سربراہ قانونی ادارہ ہے جس کے فیصلہ کا اطلاق ہر ادارہ اور محکمہ پر ہوتا ہے لہذا ڈیتھ کوٹہ کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا نا صرف پولیس پر بلکہ خود سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ پر بھی اطلاق ہوتا ہے،اس فیصلہ کے بعد جموں و کشمیر کے کسی بھی محکمہ میں کسی بھی سرکاری ملازم کے مرنے کے بعد نوکری ڈیتھ کوٹے کے تحت اس کے بچوں کو نہیں دی جاسکتی،اور اسی فیصلے کے بعد پولیس میں کی جانے والی بھرتی بھی غیر قانونی تصور کی جائے گی۔

جبکہ پاکستان زیر انتظام مقبوضہ جموں و کشمیر کے سینئیر ایڈوکیٹ سپریم کورٹ،سابق وائس چیئرمین بار کونسل سید اشفاق کاظمی نے اس حوالے سے قانونی رائے دیتے ہوئے کہا کہ اگر لائبہ قریشی کی تقرری سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد ڈیتھ کوٹہ پر کی گئی ہے تو یہ تقرری نل اینڈ وائڈ ہے اور اس حوالے سے پولیس غلط بیانی سے کام لے رہی ہے،سپریم کورٹ کا فیصلہ جموں وکشمیر کے تمام محکموں بشمول پولیس کے اطلاق کرتا ہے اور ڈیتھ کوٹہ سپریم کورٹ کی جانب سے ختم کر دیا گیا ہے،اس فیصلہ کے بعد اس کے بعد پولیس یا دیگر محکمہ جات میں ڈیتھ کوٹہ پر جتنی بھی تقرریاں کی گئی،مکمل غیر قانونی ہیں تاہم اگر بھرتی اس سپریم کورٹ کے فیصلہ سے قبل کی گئی ہے تو یہ قانونی تصور کی جائے گی۔

یاد رہے کہ پولیس لیڈیز اہلکار لائبہ قریشی کی جانب سے تھانہ صدر میں زاہد مغل،احمد مغل و دیگر پر درج کرائی گئی FIR کے مطابق ریزور پولیس میں ڈیتھ کوٹہ کے تحت کی گئی انکی تقرری کی تاریخ 27 مئی 2025 درج ہے،جبکہ سپریم کورٹ آف جموں وکشمیر کا ڈیتھ کوٹہ کے خلاف کیا گیا فیصلہ 2024 میں اوائل میں تھا،اس دستیاب ریکارڈ سے یہ واضح ہیکہ لیڈیز پولیس اہلکار کی تقرری سپریم کورٹ کے ڈیتھ کوٹہ ختم کرنے کے فیصلہ کے بعد کی گئی ہے۔

Share this content: