جموں وکشمیر میں زرعی شعبہ بدترین بحران سے دوچار، کسانوں کو مشکلات کا سامنا

اسلام آباد: رپورٹ/ طاہر نذیر

پاکستان کے زیر انتظام مقبوضہ جموں و کشمیر میں محکمہ زراعت کی ناقص کارکردگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے اثرات نے زرعی شعبہ کو بدترین بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ وادی نیلم، لیپہ اور پونچھ ڈویژن میں حالیہ بارشوں اور کلاؤڈ برسٹ کے نتیجے میں کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں، زمین کا کٹاؤ بڑھ گیا اور کسان شدید مالی نقصان میں مبتلا ہیں۔

ضلع نیلم کے علاقے لیسوا میں 2019 کے سیلاب کے دوران تقریباً 400 کنال زرعی زمین بہہ گئی جبکہ مقامی کسانوں کا کہنا ہے کہ آج بھی فصلوں کی پیداوار پہلے کے مقابلے میں نصف رہ گئی ہے۔ باغ ضلع میں حالیہ بارشوں اور سیلابی ریلوں نے زرعی زمینوں کے ساتھ ساتھ رابطہ سڑکوں اور آبپاشی نظام کو بھی نقصان پہنچایا جس کے باعث اجناس کی منڈیوں تک ترسیل ممکن نہ رہی۔

مظفرآباد میں ایک اور تشویشناک مسئلہ سامنے آیا ہے جہاں جنگلی جانور خصوصاً سہ لٹھی کانٹوں والا خارپشت (Indian Crested Porcupine) سالانہ درجنوں ایکڑ زمین پر کاشت ہونے والی سبزیوں اور مکئی کو برباد کر دیتا ہے، جس سے کسانوں کو سینکڑوں کلو اجناس کا نقصان ہوتا ہے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان مقبوضہ جموں و کشمیر میں صرف 13 فیصد رقبہ زیرِ کاشت ہے جس میں سے 92 فیصد بارانی زراعت پر مشتمل ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث خشک سالی، بے وقت بارشیں اور شدید بارشوں نے پیداوار کو شدید متاثر کیا ہے۔

کسانوں کا کہنا ہے کہ محکمہ زراعت کے پاس نقصانات کا درست ڈیٹا موجود نہیں اور نہ ہی متاثرین کو معاوضہ یا متبادل سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔

دوسری جانب وزیر اعظم مقبوضہ جموں و کشمیر نے زرعی اور ماحولیاتی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ متاثرہ کسانوں کو ریلیف پیکیج دیا جائے گا اور زراعت کے جدید طریقوں کو فروغ دیا جائے گا۔ تاہم ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ جب تک محکمہ عملی طور پر جدید نظام اور پالیسی اصلاحات نہیں اپناتا، زرعی شعبے کی بحالی مشکل ہے۔

عوامی حلقوں اور کسان تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ متاثرہ کسانوں کو فوری مالی امداد فراہم کی جائے اور زمین کے کٹاؤ کے تدارک کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی کی جائے تاکہ جموں و کشمیر کی زراعت کو مکمل تباہی سے بچایا جا سکے۔

Share this content: