اسلام آباد /کاشگل خصوصی رپورٹ
پاکستان کے زیر انتظام مقبوضہ جموں و کشمیر میں جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی 29 ستمبر سے شروع ہونے والی غیر معینہ مدت کے شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام لاک ڈاؤن سے نمٹنے کے لیے جموں وکشمیر حکومت کا خفیہ منصوبہ منظرِ عام پر آ گیا ہے۔
باوثوق ذرائع کے مطابق حکومت نے بڑے پیمانے پر ایک ایسا کڑا اور مربوط آپریشنل پلان تیار کیا ہے جس کا مقصد احتجاجی تحریک کو منتشر کرنا، قیادت کو مفلوج بنانا اور شہروں میں حکومتی گرفت مضبوط بنانا ہے۔
سرکاری پلان کے مطابق میرپور اور مظفرآباد ڈویژن میں رینجرز اور وفاقی و صوبائی پولیس فورسز تعینات کی جا رہی ہیں جبکہ پونچھ ڈویژن میں مقامی جموں کشمیر پولیس کو ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ حکومتی حکمتِ عملی کے مطابق احتجاجی مظاہرین کو براہِ راست طاقت سے روکنے کے بجائے اہم سرکاری عمارات کی حفاظت اور آزاد پتن شاہراہ سمیت منگلا اور کوہالہ جیسے بین الصوبائی راستوں کو کھلا رکھنے پر توانائیاں صرف کی جائیں گی۔
اس کے برعکس مختلف اضلاع کے درمیان مرکزی راستے خود حکومت عارضی طور پر بند کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے تاکہ ایک شہر سے دوسرے شہر احتجاجی قافلے نہ پہنچ سکیں اور کسی بھی لانگ مارچ کو جڑ سے ناکام بنایا جا سکے۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے ایک اور حکمتِ عملی بھی تیار کر لی ہے جس کے تحت لاک ڈاؤن شروع ہونے سے پہلے ہی ایکشن کمیٹی کے متحرک رہنماؤں کو حراست میں لے کر سرکاری عمارات میں زیر حراست رکھنا ، ریاست سے باہر منتقل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے تاکہ احتجاجی قیادت کا باہمی رابطہ ٹوٹ جائے اور تحریک کمزور ہو جائے۔
اسی دوران بڑے شہروں میں بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ فورسز کی طاقت کا مظاہرہ کر کے عوامی مقامات پر سخت کنٹرول قائم رکھنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
سیاسی محاذ پر بھی ایک مربوط پلان تیار ہے۔
سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنے اراکینِ اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز کو آبائی حلقوں میں واپس بھیج رہی ہے جبکہ حکومت وزراء اور مشیروں کو اپنے اپنے انتخابی علاقوں میں رہنے کی پابند کر رہی ہے تاکہ ابتدائی دنوں میں ہی سیاسی و انتظامی دباؤ کے ذریعے ہڑتال کو ناکام بنایا جا سکے۔
اسمبلی ارکان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے تعلقات اور اختیارات استعمال کر کے مقامی سطح پر احتجاج کو غیر مؤثر بنائیں، جبکہ وزیرِ داخلہ جموں و کشمیر براہِ راست آپریشنز کی نگرانی کریں گے اور لمحہ بہ لمحہ رپورٹ اسلام آباد اور مظفرآباد کو پہنچاتے رہیں گے۔
انتہائی اہم انکشاف یہ بھی ہے کہ جیسے ہی لاک ڈاؤن شروع ہوگا، حکومت عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے تمام راستے بند کر دے گی، یعنی احتجاجی قیادت کو بات چیت کا کوئی موقع نہیں ملے گا اور ریاست اپنی شرائط پر رٹ قائم کرے گی۔
Share this content:


