گوادر میں کتب اسٹال پرپولیس کا حملہ ، منتظمین کتابوں سمیت گرفتار اور تھانہ منتقل

بلوچستان کے ساحلی شہر وسی پیک مرکز گوادر میں منگل کے روز پولیس نے بلوچستان کتاب کاروان کے نام سے لگے ایک بک اسٹال پر دھاوابول کر منتظمین طلباکو گرفتار کرکے کتابوں سمیت تھانہ منتقل کردیاہے ۔

بلوچ اسٹوڈنس ایکشن کمیٹی کی جانب سے نئے سال کے آغاز میں "کتاب کاروان "کے نام سے بلوچستان بھر میں کتب میلوں کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا جسے ہر طبقہ فکرسے تعلق رکھنے والے طلبا، بچے ،بوڑھے اورجوانوں کی طرف سے خاصی پذیرائی حاصل ہے ۔

گوادر سے قبل بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بھی کتاب اسٹالوں پر پولیس نے دھاوابول کر انہیں سبوتاژ کیا اور منتظمین سمیت اسٹالوں پر وزٹ کرنے والوں کو دھمکایا اور ہراساں کیا گیاتھا۔

بلوچ اسٹوڈنس ایکشن کمیٹی نے واقعے کے ردعمل میں کہا ہے کہ اگر کتابیں پڑھنا اور پڑھانا غیر قانونی ہے ملک کے تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں کو تالا لگا کر بند کیا جائے اور پارلیمنٹ میں بِل پاس کیا جائے کہ آج کے بعد اس ملک میں کتابوں پر پابندی ہے تو سارا مسئلہ ہی ختم ہوجائے گا۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان کی ترقی کا محور سمجھنے والا گوادر شہر میں کتابوں پر قدغن اور علم پر پابندی عائد ہے جو انتہائی شرمناک اور افسوسناک ہے۔
اسی شہر میں منشیات اور دیگر سماجی جرائم سرعام ہوتے ہیں مگر معاشرے میں علم پھیلانے والے نوجوان گرفتار کرکے تھانوں میں بند کیے جاتے ہیں جو اس ملک و ہمارے نام نہاد حکمرانوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔

بساک نے کہاکہ گوادر سمیت بلوچستان کے دیگر کچھ علاقوں میں بھی اسی طرح نوجوانوں کو ہراسگی کا سامنا رہا ہے۔ ایسے عمل بلوچ نوجوانوں کو علم سے دور مایوس کرنے کے ہتھکنڈے ہیں مگر علم حاصل کرنے اور پھیلانے کی جدوجہد میں ہم کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور ہم زمہ داروں سے سختی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام طلباء کتابوں سمیت رہا کیے جائیں اور مسلسل بلوچ نوجوانوں کی اس طرح ہراسگی بند کی جائے۔

دوسری جانب گوادرپولیس تھانے میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کےچیئرمین بالاچ قادر نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان میں کتاب وکی خریدو گروخت،پڑھنے اور تبصرہ کرنے پر ایک ایسی مارشال لا لگا دی گئی ہے جس سے بلوچ نوجوانوں کی جو شعوری جدوجہد ہے اس پر ایک اعلانیہ پابندی لگادی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم گذشتہ ڈھائی گھنٹوں سے سٹی پولیس تھانے میں موجود ہیں جہاں طلبا کتابوں سمیت زیر حراست ہیںجو دنیا کی انوکھی واقعات ہے ۔ اب بلوچ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ کتابوں کو بھی گرفتار کرکے تھانوں میں منتقل کیا جارہا ہے۔

انہوںنے کہا کہ درجن بھر طلبا کتابوں سمیت تھانے میں بند ہیںاور کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے بس یہ بہانا بنایا جارہا ہے کہ کتابوں کوچیک کیا جارہا ہے کیونکہ یہ ریاست مخالف کتاب ہیں۔

بالاچ قادر نےکہا کہ تمام کتابیں لاہور، کراچی وکوئٹہ کی پبلشنگ ہاوئسز سے لائی گئی ہیں اگر یہ ریاست مخالف کتابیں ہیں تو یہ پاکستان بھر میں فروخت کیوں ہورہی ہیں اور ریاست کے زیر اہتما م بعض فیسٹیولزاور ادبی کتب میلوں بھی فروخت ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ نوجوانوں کی کیا قصور ہے کہ ان پر بک اسٹال لگانے پر پابندی ہے۔

بالاچ قادر نے تما م باشعور افرادادبا وطلبا اور کتاب پرور لوگوں سے اپیل کی وہ علم و ادب اور کتاب پروری پر ریاستی قدغن کیخلاف آواز اٹھائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے