استور میں ڈائیلاسز مشینوں کی عدم دستیابی پر شدید احتجاج

 

استور یوتھ آرگنائزیشن نے استور کے ہسپتال میں ڈائیلاسز مشینوں کی عدم دستیابی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

تنظیم نے ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا جس میں تمام علاقوں کے کوآرڈینیٹرز اور قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت کے طلباء نے شرکت کی۔

اجلاس کی صدارت سرتاج عالم اور فہیم ضیا نے کی۔

اجلاس میں استور یوتھ آرگنائزیشن نے سخت الفاظ میں اس صورتحال کی مذمت کی جہاں استور کے ہسپتال میں تین ڈائیلاسز مشینیں کئی سالوں سے موجود ہیں، لیکن انہیں ابھی تک فعال نہیں کیا گیا۔ اس غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے استور کے گردوں کے مریضوں کو ناقابل برداشت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مریضوں کو ہفتے میں دو بار ڈائیلاسز کروانے کے لیے گلگت کا طویل سفر کرنا پڑتا ہے، جو کہ نہ صرف وقت طلب ہے بلکہ مالی طور پر بھی بہت بوجھ ہے۔ ایک ڈائیلاسز کی لاگت تقریباً 5 سے 6 ہزار روپے ہے، اور اس طرح فی مہینہ ایک مریض پر 150 لاکھ روپے سے زیادہ کا خرچہ آتا ہے۔ یہ اخراجات غریب مریضوں کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔

مزید برآں، ہمیں یہ جان کر شدید صدمہ پہنچا ہے کہ صحت کے سیکرٹری نے ان عملے کو واپس گلگت بلانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جو ان مشینوں کو چلانے کے لیے لائے گئے تھے۔ یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ مشینوں کو واپس گلگت لے جایا جائے گا۔

استور یوتھ آرگنائزیشن اس فیصلے کی پرزور مذمت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ استور ہسپتال میں موجود ڈائیلاسز مشینوں اور عملے کو فوری طور پر استور میں ہی رکھا جائے۔اور ان مشینوں کو جلد از جلد فعال کیا جائے تاکہ مقامی لوگوں کو ڈائیلاسز کی سہولیات میسر آ سکیں۔مریضوں کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری اقدامات کیے جائیں۔

استور یوتھ آرگنائزیشن اس مطالبے پر سختی سے قائم ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ مقامی لوگوں کی مشکلات کو مد نظر رکھا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے