آزادیٔ صحافت مارچ مظفرآباد کی طرف روانہ، کشمیری صحافتی و مالکان کی تنظیمیں لاتعلق

اسلام آباد ( کاشگل نیوز)

 

اسلام آباد سے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی کال پر آزادیٔ صحافت کے لیے احتجاجی مارچ کے شرکاء مظفرآباد کے لیے روانہ ہو چکے ہیں۔ تقریباً 100 کے قریب یہ صحافتی تنظیموں کے نمائندگان اور کچھ صحافی پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے اخبار ’جموں و کشمیر‘ کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج اور پیکا ایکٹ کے تحت پاکستان میں صحافیوں کے خلاف درج ہونے والے مقدمات کے خلاف احتجاج کرنے مظفرآباد جا رہے ہیں۔ کل 17 اپریل کو مظفرآباد پریس کلب میں جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

دوسری جانب جموں کشمیر میں اخباری مالکان کی تنظیم اے کے این ایس کے صدر امجد چوہدری نے اپنے دیگر ساتھیوں اور عہدیداروں کے ہمراہ اس مارچ سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے حکومت سے یکجہتی کا اعلان کیا ہے۔

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں پریس کلبوں کی رجسٹریشن، صحافت کو ریگولرائز کرنے اور صحافیوں کی فلاح کے نام پر قائم ’پریس فاؤنڈیشن‘ کے وائس چیئرمین سردار ذوالفقار نے بھی ایک ویڈیو پیغام میں اس لانگ مارچ سے لاتعلقی کرتے ہوئے حکومت سے یکجہتی کا اعلان کیا ہے۔

یاد رہے کہ پریس فاؤنڈیشن ہی تمام صحافیوں اور پریس کلبوں کو رجسٹر کرتی ہے اور صحافیوں کے ووٹ سے اس فاؤنڈیشن کا وائس چیئرمین منتخب ہوتا ہے، جبکہ اس کی سرپرستی بطور چیئرمین ہائی کورٹ کا ایک جج کرتا ہے۔ یوں پریس فاؤنڈیشن میں رجسٹر تمام صحافیوں کو ہی اس لانگ مارچ سے لاتعلق کر دیا گیا ہے۔

اس طرح اسلام آباد سے آزادیٔ صحافت کے لیے آنے والے لانگ مارچ کے خلاف حکومت ہی نہیں بلکہ صحافیوں اور اخباری مالکان نے بھی صف بندی کر لی ہے۔ ایسا تاثر بن گیا ہے کہ جموں کشمیر میں صحافت کو آزاد کروانے کے لیے اسلام آباد سے یلغار کی جا رہی ہے، جس کا دفاع کرنے کے لیے صحافی بھی حکومت کے پشتی بان بن چکے ہیں۔

ہاں البتہ لانگ مارچ کے شرکاء کے ایجنڈے میں ایک ریاستی اخبار کے خلاف مقدمہ واپس لینے کے علاوہ دیگر مطالبات پاکستان میں پیکا ایکٹ کے تحت درج مقدمات کے خاتمے سے متعلق ہیں،جو ظاہر ہے مظفرآباد کی حکومت نہیں کر سکتی۔ یوں یہ مارچ محض ایک اخبار کے خلاف درج ہونے والی ایک جعلی اور بوگس ایف آئی آر واپس لینے کے مطالبے تک ہی ہے۔ مظفرآباد میں کھڑے ہو کر پیکا ایکٹ کے خلاف بات کرنے کی مگر کچھ علامتی اہمیت ضرور ہے۔

اس معمولی احتجاج سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ پریس فاؤنڈیشن کے نام پر بنائے گئے ادارے کے ذریعے صحافیوں کو سہولیات دینے کی بجائے صحافیوں کو ریاست کا مطیع اور حکومت کا فرمانبردار بنانے کا عمل کیا گیا ہے۔ یہ ادارہ صحافیوں کے خلاف ہونے والی ریاستی انتقامی کارروائیوں میں صحافیوں کا دفاع کرنے کی بجائے انتقامی کارروائیوں کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرتا ہے۔ پریس کلب یا یونینیں کسی حد تک ان انتقامی کارروائیوں پر بارگیننگ کی حد تک احتجاج کیا کرتےتھے، لیکن اب ان کی رجسٹریشن بھی پریس فاؤنڈیشن سے ہوتی ہے، اس لیے وہ فورم بھی بند ہو چکا ہے۔

پی ایف یو جے نے اسلام آباد میں آزادیٔ صحافت کا پرچم بلند کیا ہے، لیکن اس کا کردار بھی ایک پاکٹ یونین سے زیادہ نہیں رہ گیا ہے۔ تاہم ریاستی اداروں کی طرف سے ماورائے عدالت صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کے خلاف ہونے والے اقدامات پر کسی حد تک ایک نحیف ہی سہی لیکن ایک یہی آواز پاکستان میں بچی ہوئی ہے۔ آزادیٔ صحافت کے لیے کسی ٹھوس اقدام یا مزاحمت کی توقع البتہ اس نحیف آواز سے رکھنا بھی اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ یہی افضل بٹ اور ان کی پی ایف یو جے اسلام آباد پریس کلب میں برسرِ اقتدار ہیں اور اسی پریس کلب میں سیاسی قیدیوں کو ’نامعلوم‘ ادارے لا کر سیاست یا سیاسی جماعتوں سے لاتعلقی کی پریس کانفرنسیں کرواتے رہے۔ جموں کشمیر، گلگت بلتستان، بلوچستان اور پختونخوا میں آزادی اور انقلاب کی بات کرنے والوں کو اس نیشنل پریس کلب میں انہی کے دور میں پریس کانفرنس کرنے یا کوئی تقریب منعقد کرنے کی اجازت دینے پر ’نامعلوم‘ اداروں کی ہی ایمائ پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

صورت حال یہاں تک ہے کہ نیشنل پریس کلب کے ہی رکن دانش ارشاد کی تصنیف گزشتہ سال شائع ہوئی اور اس کی تقریب رونمائی کی تاریخ دینے کے بعد تقریب کے عین ایک روز قبل بکنگ منسوخ کر کے دانش ارشاد کو مہمانوں کے سامنے شرمندہ کروایا۔ آج تک کوئی اس بات کی وضاحت نہیں کر سکا کہ یہ تقریب کس کے کہنے پر نہیں ہونے دی گئی۔

جموں کشمیر کی سیاسی تنظیموں جے کے این ایس ایف، جے کے ایل ایف اور دیگر کے لیے بھی یہ پاکستان کا قومی پریس کلب نو گو ایریا بنا دیا گیا ہے۔ اس لیے اس ملک میں آزادیٔ اظہار رائے اور آزادیٔ صحافت کے لیے بھی اپنی بساط اور گنجائش کے مطابق ہی آواز اٹھائی جا رہی ہے اور اٹھائی جا سکتی ہے۔

جموں کشمیر ایسا خطہ ہے جہاں معلومات تک رسائی کا قانون موجود نہیں ہے۔ محکمہ اطلاعات اخبار مالکان کو اشتہارات بانٹنے اور ان اشتہارات کی ادائیگیوں سے کمیشن وصول کرنے، اور ڈمی اخبارات کی رجسٹریشن کروا کر ان کے نام اشتہارات جاری کر کے زیادہ کمیشن وصول کرنے والا کردار ہی ادا کر رہا ہے۔ کوئی ادارہ ایسا موجود نہیں ہے، جہاں صحافیوں کو روزگار مہیا ہو سکے۔ اس لیے محکمہ اطلاعات کی چاپلوسی کے ذریعے اخبار کا ڈکلریشن لے کر چند ’مقدسات‘ کی تعریفوں کو یقینی بناتے ہوئے ترقیاتی بجٹ سے ایک فیصد کی تشہیری رقم سے مستفید ہونے کا راستہ ہی صحافیوں کے لیے واحد ذریعہ روزگار ہے۔ اسی راستے کا انتخاب کر کے یہاں چند درجن صحافی چند سو کاپیاں شائع کرنے والے اخباروں کے مالکان کی شکل میں روزگار سے منسلک ہیں۔ کچھ زیادہ پڑھے لکھے صحافی بین الاقوامی جریدوں کے ساتھ بطور فری لانسر یا مستقل ورکر کام کر کے اپنا روزگار چلا رہے ہیں۔

پیکا ایکٹ کو جموں کشمیر میں بطور پیکا ایکٹ نافذ کرنے کی بجائے پینل کوڈ کی سیکشن 489 ذیلی شقوں میں سائبر قوانین کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ اسی طرح پینل کوڈ کی سیکشن 500 سے 506 تک کو بھی اسی مقصد کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اس طرح مسلح افواج اور دیگر ریاستی اداروں کی توہین، تضحیک یا ان کو ’بدنام‘ کرنے کے نام پر سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف مقدمات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس مسئلے پر البتہ نہ تو لانگ مارچ کے شرکاء نے کوئی بات کی ہے اور نہ ہی پریس فاؤنڈیشن، یونینیں اور پریس کلب اس بابت کوئی بات کرپائے ہیں۔

اخباری مالکان کا جھگڑا اشتہارات بحال کروانے، جعلی مقدمہ واپس لینے اور کاروباری معاملات حل کروانے کی حد تک ہی رہنا ہے اور اس میں کوئی نہ کوئی جرگہ کام آہی جائے گا۔ پاکستان میں پیکا ایکٹ کے خلاف نحیف سی آوازیں اٹھتی رہیں گی، جموں کشمیر میں البتہ آزادیٔ صحافت، آزادیٔ اظہار رائے اور معلومات تک رسائی والا معاملہ ادھر ہی رہے گا۔ یہ حقوق یہاں نوآبادیاتی ڈھانچے کو چیلنج کرنے کا تقاضہ کرتے ہیں اور روایتی صحافت کالونائزر کو چیلنج کرنے کی بجائے فرمانبرداری کو ترجیح دیتی ہے۔ امید البتہ یہی ہے کہ نوجوان صحافی اور سیاسی کارکنان ان بنیادی حقوق کے لیے آواز بلند کرتے رہیں گے اور ایک عوامی تحرک اس جبر اور اندھیرے کے خاتمے کا باعث ضرور بنے گا۔