کاشگل نیوز اسٹوری
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں علاقہ مکینوں کی چراگاہوں پر 200 کینال اراضی ایک مدرسے کے لئے الاٹ کر نے پر عوامی حلقے سراپا احتجا ج ہیں۔
جس علاقے میں مدرسے کو 200 کینال الاٹ کی گئی ہے وہ پلندری جنگل جیل کے قریب ایریا کہلاتا ہے ۔
عوامی حلقوں نے کاشگل نیوز سے کہا ہے کہ شہر کے اندر مذکورہ مدرسہ دارلعلوم کا کیمپس ون کے نام پر 5 کینال اراضی پہلے سے موجود ہے۔ جس کے ایک کنال پر مسجد و مدرسہ تعمیر ہے اور بقیہ چار کنال پر قریباً 200 سے زائد دکانات اور پرائیویٹ رہائشی کمرے ہیں جن کی ماہانہ کرائے لاکھوں میں ہے اور کچھ عرصہ قبل اس اربوں کی شہری پراپرٹی کی تقسیم بھی مدسرے کے مہتمم مولاناسعید یوسف نے اپنے بیٹوں اور بھتیجوں میں کر دی ہے۔
واضع رہے کہ 200 کینال کی مجموعی رقبہ 25 ایکڑ بنتاہے ۔
اب مولانا سعید یوسف کو مدرسہ دارلعلوم کے کیمپس (ٹو)کے نام پر پلندری جنگل جیل کے قریب ایریا میں حکومت کی جانب سے لیز کے نام پر مزید 200 کینال الاٹ کردی گئی ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے قانون کی آڑ میں غلط اور ناجائز طریقے سے مقامی لوگوں کے 25 ایکڑ اراضی پر قبضہ کرکے اسے مدرسے نام منتقل کیا۔
مولانا سعید یوسف کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ بین الاقوامی دہشت گرد قرار دیئے جانے والے جماعت دعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کے خاص ہیں۔
جس علاقے میں مدرسے کیلئے مزید 200 کینال الاٹ کردی گئی ہے وہ علاقہ تین گائوں بڈھا درمن ، چہڑھ ، اور پوٹھ کی ملکیتی زمین کے ساتھ لگتا ہے جس پہ حق ان گائوں کے لوگوں کا بتایا جاتاہے اور وہاں مذکورہ تینوں گاوں کے مکینوں کی چراہ گائیں ہیںجس سے وہ اپنی گزربسر کرتے ہیں۔
عوامی حلقوں نے نمائندہ کاشگل کو بتایا کہ جس علاقے میں مدرسے کیلئے دو سو کینال اراضی الاٹ کی گئی وہاں مقامی آبادی کو دو مرلے الاٹ نہیں کی جاتی۔
حکومت کی جانب سے عوامی اراضیات کو مدرسے نام پر الاٹمنٹ کے خلاف عوامی حلقوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے ۔
دارلعلوم کیمپس (2)کے لئے 200 کینال اراضیات کے الاٹمنٹ پر عوامی حلقوں نے شدیدخدشات و تحفظات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ جگہے کو دہشتگردی کی تربیت و نرسری کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ جیل پلندری کے نزدیک بند جنگل کے 200 کینال کے قریب رقبے پر مولانا سعید یوسف و انکے بھائی کی طرف سے اپنے عسکری تربیت یافتہ شاگردوں کے ذریعے دن دھاڑے دارلعلوم کیمپس (2)کے نام پر قبضہ کرنا اور اس جنگل سے ملحق تین گاؤں بڈھا درمن ، چہڑھ ، اور پوٹھ کی ہزاروں کی آبادی کے حقوق کو متاثر کرنا ثابت کرتا ہے کہ اس ریاست میں واضح طور پر دو قانون نافذ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف غریب لوگ جن کو جنگل سے ایک انچ جگہ بھی خواہ وہ مفاد عامہ کے لیے ہی کیوں نہ ہو نہیں مل سکتی اور اسکے لیے بقول سرکاری اہلکاران کے جنگلات کا قانون موجود ہے کہ جنگل سے وقت کے وزیراعظم کو بھی منظوری نہیں مل سکتی اور اسی قانون کے تحت آئے روز محکمہ جنگلات اگر کوئی انھیں رشوت دئیے بغیر معمولی تجاوز بھی کر لے اور کچھ تعمیر کر لے تو اسے فوری مسمار کر دیا جاتا ہے۔
ریاستی حکومت کی جانب سے قانونی طور پردارلعلوم کیپس (2)کے نام پر 200 اراضیات کی باقائدہ منتقلی فائنل ہونے کے بعد مولانا سعید یوسف نے پورے ایریا پر تعمیراتی کام کا آغاز کردیا ہے ۔جہاںمشینریز دھڑلے سے درختوں اور زمینوں کی کٹائی میں مصروف ہیں ۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ مولانا سعید یوسف شہری زمین کا باقائدہ بٹوارہ اپنے خاندان میں کر چکے ہیں اب مدرسے کی توسیع کے بہانے جنگل کے ایک بڑے رقبے پر قبضہ کر چکے ہیں جہاں کی ملحقہ آبادی کئی دنوں سے سرکاری اداروں اور مختلف عدالتوں کے چکر کاٹ کاٹ کر تھک چکی ہے مگر کہیں پر انکی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔
ریاستی حکومت کی جانب سے مقامی لوگوں کے اراضیات کو دارلعلوم کیمپس (2)کو الاٹ کرنے کے بعد ردعمل پر عوامی حلقوں کی شدید احتجاج کی صورت میں دارلعلوم کے کچھ سابق طلبا کے ذریعے نہ صرف لوگوں کو دھمکا رہے ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف جھوٹے اور من گھڑٹ مہم چلارہے ہیں ۔
اپنے مہم میں ملحقہ آبادی کے اعتراض اٹھانے والے لوگو ں کو دین دشمن لکھ کر فتوے جاری کیے جا رہے ہیں اور انہیں پلندری کی ترقی کا دشمن ظاہر کیا جا رہا ہے ۔کچھ سرکاری اداروں جیسے ڈسٹرکٹ جیل اور خان میموریل کو بطور خا ص کوڈ کیا جارہا ہے۔
یاد رہے کہ خان میموریل کی منظوری ایک مقامی آدمی کے کیس کے نتیجے میں منسوخ ہو چکی ہے کاحوالہ دیکر اس قبضے کو لیگل قرار دیا جا رہا ہے جبکہ یہ دونوں رقبے اس قانون سازی سے قبل جس میں جنگلات سے منظوری کا قانون ختم کیا گیا تھا پہلے کے ایواڈ شدہ ہیں ۔
کچھ اندرونی ذرائع سے یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ جنگلات میں کٹائی کے دوران ہی کچھ پلاٹس کی ایڈوانس رقم بھی کچھ پارٹیز سے وصول کر لی گئی ہے اور یہ اس بات کا واضع ثبوت ہے کہ اگر کیمپس ہی بنانا مطلوب ہوتا تو اسکے ایک کنال کا رقبہ کہیں خالصہ سرکار سے منظور ہو جاتا تو کافی تھا یہ 200 کینال کے قریب رقبے کی منظوری قطعی طور پر کسی درس گاہ کے لیے نہیں ہے بلکہ درس گاہ کی آڑ میں کروڑوں کی سرکاری زمین پر ایک خونی کاروبار کے لیے قبضہ ہے جو دہشتگردی کی نرسری کے طور پر استعمال کی جائے گی۔
مقامی لوگوں کے اراضیات کو ناجائز کوطریقے سے غلط مقصد کے لئے الاٹ کرنے پر سراپا احتجاج عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اور ضلعی انتظامیہ نے اس ناجائز قبضے کو مداخلت کرتے ہوئے نہ رکوایا تو بڑے تصادم اور جانی نقصان کا اندیشہ ہے جسکی تمام تر ذمہ داری مولانا سعید یوسف اور انکے بھائی پر اور حکومت و ضلعی انتظامیہ پر ہو گی۔
Post Comment